بوآؤ، ہائی نان (شِنہوا) 1990 کی دہائی کے شروع میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ پہلی بار عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا تھا جبکہ 1994 میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کا ہوا ۔ اب دنیا بھر کے ممالک ایک اہم موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا مطالبہ ہے کہ مزید تاخیر سے قبل موسمیاتی تبدیلیوں پر ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
چین کے جنوبی صوبے ہائی نان کے شہر بوآؤ میں جاری بوآؤ فورم برائے ایشیا سالانہ کانفرنس 2024 ء میں موسمیاتی تبدیلی کے عالمی مذاکرات کاروں، کاروباری اداروں، بینکاروں اور سائنس دانوں نے موسمیاتی بحران سے نمنٹںے کے لیے ہنگامی عالمی رد عمل کی اہمیت پر زور دیا۔
بواؤ کانفرنس سینٹر میں بڑی تعداد میں موجود مندوبین اور صحافیوں کے ایک پینل مباحثے میں چینی خصوصی ایلچی برائے موسمیاتی تبدیلی لیو ژین من نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر کے ہر ملک اور ہر فرد کاربن کے خاتمے اور توانائی کی منتقلی کا ہدف حاصل کرنے کے لئے اقدامات کرے۔
پینل مباحثے میں شریک مقررین نے نشاندہی کی کہ گلوبل وارمنگ کے ردعمل میں قرضوں کا حصول ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس پینل مباحثے کا موضوع "موسمیاتی اقدامات میں تیزی" تھا۔
لیو نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے درکار فنڈز کے معاملے پر بہت دباؤ میں ہیں۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مالی ضروریات پورا کرنے میں مدد کے لئے مزید اقدامات کریں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات پر صرف چند ممالک نہیں بلکہ تمام ممالک عمل کرتے ہیں۔
لیو نے کہا کہ رقم کے علاوہ سب سے بڑا چیلنج اختراع کی مدد سے بہتر ٹیکنالوجی کی ایجاد ہے موسمیاتی تبدیلی پر انسانیت کا ردعمل ٹیکنالوجی کی ترقی پر منحصر ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ناکافی ہے کہ دنیا اس صدی کے وسط تک کاربن کا خاتمہ کردے گی۔