بیجنگ (شِنہوا) آسٹریلیا کے ایک جریدے نے کہا ہے کہ چینی تہذیت کی بنیاد پر مبنی اس کی ہم آہنگی کی اقدار سے متعلق مغربی ممالک کی غلط فہمی ناقص معلومات پرمشتمل ہے۔
پبلک پالیسی جرنل پلیٹ فارم پرلز اینڈ ایریٹیٹشن میں شائع"چین بالادستی کا نہیں ہم آہنگی کا خواہاں" کے عنوان سے ایک مضمون میں عالمی مالیاتی امور کے ماہر ڈیرل گپی نے لکھا ہے کہ سابقہ ادوار کے ناقص معیار کے ترجمے اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ مغرب میں بہت سے افراد کے لیے یہ قبول کرنا کیوں مشکل ہے کہ چین کا عالمی نقطہ نگاہ بالادستی کے بجائے ہم آہنگی پر مبنی ہے۔
گپی جو آسٹریلیا چائنہ بزنس کونسل کے قومی بورڈ کے سابق رکن بھی ہیں، نے کہا کہ چین اور اطراف کی ریاستوں کے درمیان تاریخی طور پر موجود دقیانوسی تعلقات ہیں جنہیں مغرب جاگیردارریاستیں قراردیتا ہے اور اس کے مغرب کے جدید چین پالیسی کا جائزہ لینے کے طریقے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس صورت حال میں مغرب ہم آہنگ تعاون کے بجائے تسلط پسندانہ تنازعات کی تیاری کررہا ہے۔
مضمون کے مطابق نام نہاد جاگیردارانہ تعلقات دراصل ایک ہم آہنگ رشتہ تھا جبکہ خطے میں امن و استحکام کا دارومدار ہموار اور مستحکم تجارتی تعلقات پر ہے۔
چینی دربار میں تحائف کے تبادلے کو مغرب خراج کہتا تھا حالانکہ اس کا تعلق جاگیرداری اور بالادستی سے نہیں بلکہ ہم آہنگی سے تھا اور یہ دو طرفہ تجارت کا ایک لازمی حصہ تھا۔
چین کے ارد گرد کے تمام ممالک چین کی نفاست اور ثقافت کی تقلید کرنے کے خواہشمند ہیں اور ان ممالک میں جدید معاشرے کے بہت سے پہلوؤں میں چینی اثر و رسوخ کا ثبوت موجود ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک تاریخی انتخاب ہے جو پورے خطے میں چینی ثقافت کے پرامن اور ہم آہنگ پھیلاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔
چین کا کردار واضح ہے لیکن مغرب میں اسے غلط سمجھا گیا ہے اور صدیوں کی اس غلط فہمی کو ختم کرنا ایک بڑا کام ہے۔