بیجنگ(شِنہوا)چین نے کہا ہے کہ اس کی مسلسل اعلیٰ معیار کی ترقی اور جدیدیت کی مسلسل پیش رفت سے دنیا کو مزید فوائد حاصل اور عالمی ترقی کے لیے مزید محرک قوتیں فراہم ہوں گی۔
ان خیالات کا اظہار وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے روزانہ کی پریس بریفنگ میں قومی ادارہ شماریات کی جانب سے چین کی جی ڈی پی کی2023 میں شرح نمو 5.2 فیصد ہونے کے اعلان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کیا۔
ماؤ نے کہا کہ جی ڈی پی کی 5.2 فیصد سالانہ شرح نمو گزشتہ سال کے آغاز میں مقرر کردہ ہدف سے زیادہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چین کی معیشت میں تیزی آئی اور اعلیٰ معیار کی ترقی نے ٹھوس پیش رفت کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کو اس سے کم از کم تین فائدے ہوئے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ عالمی معیشت کے لیے محرک قوت فراہم کرتا ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی سے 60کھرب یوآن سے زیادہ کی پیداوار حاصل ہوتی ہے، جو ایک درمیانے درجے کے ملک کی سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فورم کی رپورٹ کے مطابق چین کی 2023 میں عالمی اقتصادی ترقی میں شراکت 32 فیصد رہی اور وہ عالمی معیشت کا سب سے بڑا انجن ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات، اعلیٰ معیار کی ترقی ہے جس سے عالمی معیشت کو استحکام ملا ہے۔ چین کی معیشت نے گزشتہ برسوں میں مستحکم ترقی کرتے ہوئے محفوظ اور ٹھوس بنیادیں رکھی ہیں۔ کمزور عالمی معیشت کے باوجود چین کی ملکی طلب مستحکم رہی، کم افراط زرکے ساتھ عالمی رجحان کے برعکس درآمدات اور برآمدات میں اضافہ ہوا اور وہ مسلسل 14 سالوں سے مینوفیکچرنگ ویلیو ایڈڈ میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ یہ عالمی معیشت کے لیے ایک سہارا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ تیسرا یہ کہ چین دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ نئے مواقع کا اشتراک کرے گا۔ چین میں، اس وقت درمیانی آمدنی والے طبقے کے افراد کی تعداد 40 کروڑ سے زیادہ ہے ، اور توقع ہے کہ اگلی دہائی میں یہ تعداد 80 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ یہ مجموعی عالمی طلب کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ چین 140 سے زیادہ ممالک اور خطوں کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جس میں مجموعی طور پر ٹیرف سطح 7.3 فیصد تک کم کر دی گئی ہے جو نسبتاً عالمی تجارتی تنظیم کے ترقی یافتہ ارکان کے برابر ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں، چین میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع تقریباً 9 فیصد رہا ، جو عالمی سطح پر کافی زیادہ مسابقتی ہے۔