پیرس (شِنہوا) بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے ایک سینئر تجزیہ کار ہیمی بہار نے کہا ہے کہ چین نے قابل تجدید توانائی میں جو کچھ حاصل کیا ہے وہ دنیا بھر کے لئے ایک مثال ہے۔
رواں ماہ کے شروع میں جاری کردہ اپنی سالانہ قابل تجدید تجزیہ رپورٹ میں آئی ای اے نے بتایا ہے کہ دنیا نے 2022 کی نسبت 2023 میں 50 فیصد زائد قابل تجدید صلاحیت کا اضافہ کیا ہےاور اگلے 5 برس میں اب تک کی تیز ترین ترقی نظرآئی۔
بہار نے مزید کہا کہ شمسی فوٹو وولٹک (پی وی) کی تنصیب میں صرف چین نے اکیلے تقریباً 220 گیگاواٹ شمسی فوٹو وولٹک نصب کئے جو دنیا بھر کی مشترکہ صلاحیت کے مساوی ہے اس سے ایک سال میں اس کی صلاحیت دوگنی ہوگئی ہے۔
آئی ای اے کی رپورٹ کے شریک مصنف بہار نے ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ چین عالمی سطح پر شمسی فوٹو وولٹک ماڈیولز کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے جس کا دنیا میں اس شعبے میں حصہ تقریباً 80 فیصد حصہ ہے۔
آئی ای اے کی رپورٹ میں پولی سلیکون فوٹو وولٹک ماڈیولز میں پیداواری لاگت کا فرق بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں چین میں اخراجات کی نسبت پولی سلیکون فوٹو وولٹک ماڈیول کی تیاری امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں 10 فیصد اور یورپی یونین (ای یو) میں 60 فیصد زیادہ مہنگی تھی۔
بہار نے کہا کہ یہی وجہ گزشتہ دہائی میں شمسی ماڈیول کی قیمتوں میں 80 فیصد سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے شمسی ماڈیولز کی کم قیمتوں نے دنیا کے تمام ممالک کو شمسی فوٹو وولٹک کی تنصیب بڑھانے میں مدد دی۔