بیجنگ (شِنہوا) چین نے حالیہ برسوں میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ترقی کو بہت اہمیت دی ہے تاکہ وہ خود کو ایک بڑے عالمی مصنوعی ذہانت کے اختراعی مرکز کے طور پر پیش کرسکے۔
چہرے ، آواز کی شناخت ، ذہین روبوٹس ، ورچوئل رئیلٹی اور بغیر ڈرائیور گاڑیاں جیسی ٹیکنالوجیز بڑے پیمانے پر ملک میں استعمال ہورہی ہیں جو تعلیم ، طبی دیکھ بھال ، سائنس و ٹیکنالوجی ، لاجسٹکس ، زراعت اور تفریح جیسے شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں۔
نئی نسل کی مصنوعی ذہانت سے متعلق ترقیاتی منصوبہ بندی کے مطابق چین کا مقصد 2030 تک دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی ذہانت کا اختراعی مرکز بننا ہے جس میں اس کی مصنوعی ذہانت کی بنیادی صنعت کی مالیت 10 کھرب یوآن (تقریباً 140.9 ارب امریکی ڈالر) سے زائد ہوجائے گا جبکہ متعلقہ صنعتوں کی مالیت 100 کھرب یوآن سے زائد ہوگی۔
چین نے مصنوعی ذہانت کے بڑے اطلاق اور صنعتی مسائل حل کرنے کے لئے سائنسی و ٹیکنالوجی میں تحقیق اور ترقی ، ایپلی کیشن کی تشہیر اور صنعتی ترقی کے اعتبار سے پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔
بہت سی مقامی حکومتیں مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی اور متعلقہ صنعتوں میں ترقی کے فروغ کے لئے اختراعی وسائل کا انضمام بھی تیز کررہی ہیں۔
بیجنگ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بھرپور مصنوعی ذہانت ٹیلنٹ کے وسائل، مستحکم تحقیق و ترقی کے علاوہ اختراعی صلاحیتوں اور فعال مصنوعات بار بار پیش کررہا ہے۔
چین کی مصنوعی ذہانت کی صنعت میں 2023 کی ترقیاتی رپورٹ کے مطابق ملک کے 2 ہزار 200 منصوعی ذہانت اداروں میں سے تقریباً 28 فیصد بیجنگ میں ہیں اور وہ اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
گزشتہ برس بیجنگ نے مصنوعی ذہانت میں ترقی کے فروغ کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ جاری کیا تھا۔جس کے تحت 2025 تک اس کی مصنوعی ذہانت کور صنعت کی مالیت 300 ارب یوآن تک پہنچ جائے گی۔