بیجنگ (شِنہوا) جمہوریت سے متعلق ایک عالمی فورم کے ماہرین نے کہا ہے کہ چینی جمہوریت اور طرزِحکمرانی انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہےجو عوامی امنگوں کی ترجمانی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
''مشترکہ انسانی اقدار" کے عنوان سے بیجنگ میں منعقدہ جمہوریت سے متعلق تیسرے عالمی فورم میں اندرون و بیرون ملک سے 200 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی جن میں سرکاری محکموں اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں، ماہرین اور اسکالرز شامل تھے جنہوں نے جمہوریت اور عالمی طرزِحکمرانی سے متعلق موضوعات پر ذاتی یا ورچوئل طور پر تبادلہ خیال کیا۔
برطانیہ کے 48 گروپ کلب کے صدر اسٹیفن پیری نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ چین جمہوریت کی ایک اچھی شکل کی سمت بڑھ رہا ہے ،چین کے پاس لوگوں کو سننے اور ان کا جواب دینے کا ایک مضبوط نظام موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی رہنما اس بارے میں بہت زیادہ تحقیق کرتے ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ، کیا محسوس کرتے ،کیا تجربہ کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کی نسبت چین میں عوام کی بات سننے کی جمہوریت ممکنہ طور پر سادہ ہے۔
چینی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے اعزازی پروفیسر وانگ شاؤ گوانگ نے نشاندہی کی کہ کس طرح چینی حکام عوامی درخواستوں سے متعلق جاننے کے لئے عوام کے پاس جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین میں عہدیداروں کو اگلی صفوں میں جانا پڑتا ہے، دیہات اور مقامی برادریوں کا دورہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ کام کا اشتراک کرتے ہیں اور ان کے درمیان رہتے ہیں۔
وانگ نے اس طریقہ کار کو عوامی نقطہ نگاہ پر قائم رہنا قرار دیا جو چینی جمہوریت کے لئے انتہائی مفید ہے۔
شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ چین میں حکام عوامی امنگوں پر پورا اترتے ہیں جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان توقعات کو عملی شکل میں پورا کیا جا تا ہے۔