ارمچی (شِنہوا) چین کے سنکیانگ ویغور خود مختار خطے اور دیگر صوبوں کے ماہرین نے شمال مغربی سنکیانگ ویغورانسانی حقوق کی ترقی کے خلاف مغربی حکومتوں، میڈیا اداروں اور تھنک ٹینکس کے پروپیگنڈہ مسترد کردیا ہے۔
آئیڈیاز اینڈ اسٹوری شیئرنگ کانفرنس کے موقع پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب میں ماہرین نے کہا کہ مغرب بالخصوص امریکہ دہشت گردی اور انسانی حقوق کے بارے میں دوہرا معیار رکھتا ہے جبکہ سنکیانگ کی سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ پر بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔
چین کی رین من یونیورسٹی کے ہیومن رائٹس سینٹر کے پروفیسر ژو لی یو نے کہا کہ امریکی حکومت نجی جیلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ ملکر کام کرتی ہے جہاں قیدیوں سے غلاموں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
ژو نے کہا کہ امریکی میڈیا ادارے نجی جیلوں کے قیدیوں کی تکالیف کے بارے میں شاذ و نادر ہی رپورٹنگ کرتے ہیں تاہم سنکیانگ میں نام نہاد "جبری مشقت" کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
پروفیسر نے کہا کہ "نام نہاد ویغور جبری مشقت روک تھام قانون" کا مقصد سنکیانگ سے کپاس اور دیگر مصنوعات کی فروخت میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنی مصنوعات فروخت کرسکیں۔
سنکیانگ نارمل یونیورسٹی کے میوزک اسکول کے سربراہ بتور بارات نے کہا کہ مرکزی حکومت 1960 کی دہائی سے روایتی "ویغورمقام" موسیقی کو محفوظ کرکے اسے فروغ دے رہی ہے اور اس ضمن میں بہت سے مقام میوزک گروپ تشکیل دیئے گئے ہیں جو دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنکیانگ "ویغورمقام" کو 2005 میں اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم کی انسانیت کے "زبانی اور غیرمادی ورثہ" شاہکاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اگر حکومت نے مغربی رپورٹس کی طرح "ثقافتی نسل کشی" کو اپنایا ہوتا تو "مقام" کیسے زندہ رہ سکتا تھا اور ہمیں وراثت میں کیسے ملتا؟
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے ایسوسی ایٹ ریسرچر بائی فین نے کہا کہ افراد کے آزادی کے حق پر زیادہ زور دینے کا مغربی نقطہ نظر حکومتی کردار کو نظر انداز کردیتا ہے جس سے بعض اوقات امریکہ میں منشیات کے مسئلے کی طرح انفرادی وقار کو نقصان پہنچتا ہے۔
بائی نے کہا کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا مسئلہ ہمیشہ مغرب کی امداد سے جڑا رہتا ہے اور یہ اسے دوسرے ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔