بیجنگ(شِنہوا)چین کو آبادیاتی ترقی اورمختلف شعبہ جات کی کارکردگی کے پیش نظر بدلتے ہوئے اقتصادی منظرنامے کا سامنا ہے تاہم اس کے باوجود وہ طویل مدتی پائیدار ترقی کے حصول کے لیے ان تبدیلیوں کوعملی جامعہ پہنانے کا پختہ عزم کرتے ہوئے صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیارہے۔
اس بدلتی صورتحال نے عالمی بحث چھیڑدی ہے، جس میں چین کے اقتصادی عروج کی سمت کے حوالے سے رائےتقسیم ہے۔ ناقدین عمر رسیدہ آبادی اور دیگر چیلنجز کو اس صورتحال کی وجہ قرار دیتے ہیں جبکہ "مستقبل کا چین، اب بھی چین ہے" کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ چین سرمایہ کاری کے ایک اہم مرکز کے طور پر پائیدارانداز میں دنیا کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے۔
"پیک چائنہ " کا بیانیہ گرتے ہوئے اعدادوشمار،مرکزی جی ڈی پی کی شرح نمو، معیار میں بہتری اور اقتصادی رفتار جیسےعوامل کی جانب بمشکل توجہ مبذول کرواتا ہے جس سے چین کی ابھرتی ہوئی ترقی کے محرکات پس پشت چلے جاتے ہیں۔
چین کی دو ہندسوں کی شرح نمو کا دور شاید گزر چکا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسکی معاشی کہانی کا اختتام ہے بلکہ چینی قوم ترقی کے اعلی معیار کے نمونے کو اپنانے کی جانب گامزن ہے اور اس مقصد کے تحت تاریخی کارنامے کے طور پر ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو جدیدیت کی طرف لانا ہے۔
چین کی اقتصادی ترقی کی شرح کی پیشن گوئی5 سے 6 فیصد کے درمیان کی گئی ہے جبکہ بڑی معیشتیں اس سےحسد کرتی ہیں ۔ سال2023 میں چین کی 5.2 فیصد شرح نمو کا مطلب ہے کہ اس کی معیشت میں 60 کھرب یوآن (تقریباً 844.31 ارب ڈالر) سے زیادہ اضافہ دیکھا گیاہے جو ایک درمیانے درجے کے ملک کی سالانہ پیداوار کے برابر ہے۔ حکومتِ چین نے نظریاتی ترقی کو حقیقی شکل دینے کے لیے کھپت کی حوصلہ افزائی اور مؤثر سرمایہ کاری میں اضافے جیسے نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔
ماضی میں چین کا برآمدات پر مبنی پیداوار پر انحصار رہا ہے جس کی "سستی افرادیِ قوت" کی وجہ سے صارفین سے چلنے والی معیشت کےلیے فائدہ مند نتائج سامنے آرہے ہیں جبکہ عوام کی دولت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ موسم بہار کے میلے کے دوران تعطیلات کے دوران سفری دورے اور باکس آفس پر ریکارڈ ساز اخراجات اس کا واضح ثبوت ہے۔
ملک کا بڑھتا ہوا درمیانی آمدنی والے طبقے کے اگلی دیہائی تک 30 کروڑ تک بڑھنے کا امکان ہے جبکہ دیہی تارکین وطن شہروں کی طرف رخ کررہے ہیں اور یہ دونوں عوامل صارفین کی نمایاں صلاحیت کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ اس حوالے سے اعدادوشمار ابھی سامنے آنا باقی ہے۔
چین میں سرمایہ کاری کےبھی وسیع مواقع موجود ہیں جس میں خاص طور پر مستقبل پر مبنی شعبوں میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔
چین اپنے ترقی کے نئے ماڈل کے لیے ایک کلیدی انجن کےطور پر"نئی پیداواری قوتوں" کو فروغ دینے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے جبکہ صوبائی سطح کے کئی خطوں نے رواں سال کے لیے کام کرنے کی ترجیحات کےحوالے اپنی رپورٹس میں ترقی کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر بیان کیا ہے۔
2022 میں، نئی نسل کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی اسٹریٹجک لحاظ سے ابھرتی ہوئی صنعتوں کی قدر میں اضافہ ہوا ہے جو کہ چین کی شرح نموکا 13 فیصد سے زیادہ تھی۔ چین 2025 کے آخر تک اس تناسب میں 17 فیصد سے زیادہ اضافے کا منصوبہ رکھتا ہے، جبکہ اس کا مقصد 2027 تک ان شعبوں میں بڑی ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کرنا ہے۔
ماحول دوست بنیادی ڈھانچے، توانائی، اور نقل و حمل میں چین کی کامیابی قابل ذکر ہے، ملک دنیا کی فوٹو وولٹک پاور اور نئی توانائی کی گاڑیوں کی تیاری میں نمایاں حصہ ڈال رہا ہے۔ توقع ہے کہ صرف ان شعبوں سے 100 کھرب یوآن کی سالانہ مارکیٹ ویلیوحاصل ہوگی۔
چین ملک بھر میں پنپتی ہوئی ایجادات، اور کاربار کی بدولت اپنی وسیع پیمانے کھپت اور سرمایہ کاری کی منڈیوں کے استعمال میں اچھا خاصا مقام رکھتا ہے۔
دنیا کی تقریباً 40 فیصد "لائٹ ہاؤس فیکٹریاں" اور کھلونے تیار کرنے والی کمپنیوں کی دوسری بڑی تعداد چین میں موجود ہے جبکہ دنیا کا سب سے بڑا فائیو جی نیٹ ورک بھی چین میں ہے اور وہ کمپیوٹنگ پاور کے لحاظ سے عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ان ہنرمندیوں کی وجہ سے چینی صنعتوں کی خودکاری اور پیداواری صلاحیت کو فروغ ملتا رہے گا۔
چین کی ترقی کا محور اس کے محنتی اور ہنر مند لوگ ہیں۔ملک میں آبادیاتی ترقی سے ہنر کی بنیاد پر ترقی کی جانب منتقلی کو قابل قدر سمجھا جارہاہے جہاں انجینئرنگ کے شعبہ میں 4 کروڑ20 لاکھ پیشہ ور افرادی قوت سمیت 24 کروڑ سے زائد افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ یہ اعداد و شمار جرمنی اور جاپان کی مشترکہ آبادی سے زیادہ ہیں۔