پوٹوسی، بولیویا (شِنہوا) میرے جسم میں خون ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ میرے وطن کے لیے رو رہا ہے ،ریٹائرڈ کان کن جولیو ر ی یس نے زیرلب بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
جولیو کا آبائی شہر، پوٹوسی، دنیا کے انتہائی بلندی پر واقع شہروں میں سے ایک ہے اوسط 4ہزار میٹر سے زیادہ بلندی کے ساتھ اس شہر کا ماضی شاندار لیکن افسوسناک ہے۔
67 سالہ جولیو نے شِنہوا کوبتایا کہ "یہ پہلا موقع ہے جب میں نے باہر کے لوگوں کو اپنی اور اپنے آبائی شہر کی کہانی سنائی، امید ہے کہ دنیا اس کی وجہ سے میرے وطن کو حقیرخیال نہیں کرے گی"
سلور ہارس شوز
پوٹوسی میں 1545 میں چاندی کی ایک وسیع کان دریافت ہوئی تھی، جس نے مقامی ہسپانوی نوآباد کاروں کو ایک جنون میں مبتلا کر دیا تھا۔ یہ اندازہ کے مطابق اپنے عروج پر، یہاں سے چاندی کی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا تقریبا نصف تھا۔
صرف چند دہائیوں میں، پوٹوسی، جو کبھی "بنجر پہاڑوں اور لاما کے مسکن کے سوا کچھ نہیں تھا"، ایک پر رونق شہر بن گیا جس کی آباد ی 1 لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل تھی جس کا موازنہ اسی عرصے کے لندن اور پیرس سے کیا جا سکتا تھا۔
یوراگوئے کے مصنف ایڈورڈو گیلیانو نے اپنی تحریر"لاطینی امریکہ کی کھلی رگوں" میں اس شہر کے انتہائی عیش و آرام کا ذکر کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں، "گھوڑوں کی نعلین بھی چاندی کی بنی ہوئی تھیں۔"
تاہم، یہ دولت صرف اور صرف نوآباد کاروں کی تھی، جب کہ مقامی لوگ جو نسل در نسل اس زمین پر آباد تھے، ان کے استحصال کے سنگین نتائج بھگت رہے تھے۔
تقریباً 300 سال بعد، جب نوآباد کار چلے گئے، تو کانوں میں صرف تھوڑی سی چاندی باقی بچی تھی۔
آج، پوٹوسی جنوبی امریکہ کے سب سے کم ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک ہے۔ چاندی کو صاف کرنے کے عمل میں پارے کے استعمال سے وسیع پیمانے پر زہریلی گیسیں اور گندا پانی پیدا ہواجس سے اس کے وسیع علاقے بنجر ہو گئے۔
کسی وقت کا امیر ترین شہر اب مفلس ترین ہے
پوٹوسی کی شان اور المیہ بڑی حد تک تقریبا 5ہزار میٹر کی بلندی پر واقع کان میں پیش آنے والے واقعات سے جڑا ہواہے۔
اس پہاڑ کو اس کی چاندی کی دولت کی وجہ سے "سیرو ریکو" (امیر پہاڑ)کا نام دیا گیا تھا۔ اس کی سرخ ڈھلوانیں، بے شمار سفید راستوں کے ساتھ ، جولیو کے چہرے پر پڑی جھریوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ یہ انمٹ داغ مغربی استحصال اور لوٹ مار کی تاریخ کے نشان ہیں۔
مقامی گائیڈ جانی مونٹیس نے کان کنی کے علاقے میں داخل ہونے پر صحافیوں کو بتایا، "اس وقت کے مقامی لوگوں کے لیے یہ جگہ 'جہنم کے دروازے کی طرح تھی۔" آج بھی، پوٹوسی کے کان کنوں کی اوسط عمر صرف 40 سال ہے۔
کان میں، صحافیوں نے جولیو کی طرح کان کنوں کا ہیلمٹ، بارش کے جوتے او ر کان کنوں کا لباس پہنا، اپنے ہیڈ لیمپ کی پاور کے لیے بیٹری پیک لے کر، وہ کان کے 40 میٹر گہرے ٹرانسپورٹ لیول میں اترے، جو زمین کی سطح کے چھ ورکنگ لیولز کے قریب ترین لیول ہے۔
مائن شافٹ کی مدھم اور تنگ گزرگاہوں میں، صحافیوں کو اپنا سر جھکانا پڑا کیونکہ کسی بھی غلطی کے نتیجے میں ان کے ہیلمٹ اوور ہیڈ چٹان سے ٹکرانے کا سبب بن سکتے تھے۔ راستے میں، ان کا سامنا دو نوجوان کان کنوں سے ہوا، جو ایک مائننگ کارٹ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے نیچے زمین کے ساتھ بمشکل 30 ڈگری سے زیادہ کے زاویے پر آگے بڑھ رہے تھے۔
پوٹوسی کی ایک بزرگ خاتون جس کا برسوں پہلے گیلیانو نے انٹرویو کیا تھا کہا کہ یہ شہر کبھی دنیا کو سب سے زیادہ دولت فراہم کرتا تھا لیکن اب اس کے پاس سب سے کم ہے۔
گیلیانو نے لکھا تھا کہ ، "انسانی اور مادی وسائل کا پاگل پن کی حد تک استحصال کسی وقت کے سب سے امیر اور اس وقت کے غریب ترین کے تضاد کا باعث بنا ۔" "پوٹوسی آج تک امریکہ میں نوآبادیاتی نظام کا رستا ہوا ناسور ہے۔"
موت میں ہی عافیت تھی۔
پوٹوسی میں بولیوین نیشنل منٹ کے تاریخی آرکائیو یونٹ سے 18 ویں صدی کے وسط کی ایک دستاویز میں ان جبری مشقتوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو مقامی لوگوں کو "میٹا لیبر سسٹم" کے تحت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، جبری مشقت اب یونیسکو کے میموری آف دی ورلڈ پروگرام میں شامل ہے۔
ہسپانوی نوآبادیات کے ذریعہ مسلط کردہ "میٹا" نظام میں یہ لازمی تھا کہ مقامی لوگ ہر سال نوآبادیاتی حکام کے لیے ایک خاص مقدار میں مزدوری فراہم کرتے اس میں بنیادی طور پر کان کنی اور متعلقہ کام شامل تھے، انتہائی سخت حالات میں دن میں 18 گھنٹے تک شفٹوں کے ساتھ کام لیا جاتا ۔ بہت سے لوگوں کو موت کی صورت ہی میں عافیت ملتی تھی۔
جبری مشقت کی انتہائی بربریت کے ذریعے، پوٹوسی کو نوآبادیات نے "سونے کی کان" سمجھا اور مقامی افرادی قوت کے غیر معمولی استحصال سے دنیا کی تاریخ میں بے مثال دولت جمع کی ۔
لاتعداد مقامی افراد کی جانوں کی قیمت پر جو کچھ حاصل کیا گیا وہ نوآبادیات کے لیے غیر معمولی عیش و عشرت کا سامان بنا تھا۔
پوٹوسی کی چاندی ہسپانوی بادشاہت کی طرف سے لڑی جانے والی دیرپا جنگوں کے لیے فنڈنگ کا ایک اہم ذریعہ بھی تھی،16ویں صدی میں چارلس پنجم اور فلپ دوم کے دور کی ہسپانوی سلطنت کو "سنہری دور" کے طور پر سراہا گیا، جس کی کالونیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔
برطانوی سلطنت کے عروج سے دو صدی قبل وہ سلطنت جس پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا کی اصطلاح کو" فلپ II اور اس کے جانشینوں کے تحت ہسپانوی سلطنت کے لیے استعمال کیا گیاتھا۔
تاریخ کو لاطینی امریکی عدسے سے دیکھتے ہوئے، گیلیانو نے کہا کہ "یورپ نے جدید سرمایہ داری کو ہوا دینے کے لیے امریکہ کے مقامی لوگوں کے استحصال پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ ماضی سے لے کر حال تک پھیلی ہوئی مقامی کمیونٹیز کی حالت زار لاطینی امریکہ کے وسیع تر المیے کی عکاسی ہے۔ "
انقلاب کی آگ کبھی مدھم نہیں ہوئی۔
18ویں صدی کے اواخر میں، امریکی انقلابی جنگ اور فرانسیسی انقلاب نے تبدیلی کی لہریں پیدا کیں جس سے لاطینی امریکہ کے لوگ بھی بیدار ہوئے۔
16 جولائی 1809 کو لا پاز میں ایک انقلاب برپا ہوا، جس سے ایسی آگ بھڑکی جس نے پرانے نوآبادیاتی نظام کو جلا کر راکھ کردیا۔
ہسپانوی نوآبادیاتی فوج کے محاصرے کے باوجود انقلاب کے شعلے کبھی مدھم نہیں ہوئے۔ 6 اگست 1825 کو بولیویا نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کیا۔ اکتوبر میں، "آزادی دہندہ" سائمن بولیور پوٹوسی پہنچے جہاں مقامی لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
پوٹوسی کے صوبائی حکومت کے عجائب گھر کی کیوریٹر شیلا بیلٹران کا کہنا ہے ، "اگر سیرو ریکو کی اقتصادی مدد اور پوٹوسی کے لوگوں کا تعاون نہ ہوتا تو آزادی کی جنگ کا کامیاب ہونا مشکل ہوتا۔"
بیلٹران نے کہا کہ بولیور کا یہ عقیدہ ہے کہ "'بولیویا' 'بولیوار' سے ماخوذ ہے، اور یہ آج ہمارے پیارے ملک کا نام ہے۔"
اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں میں رکھیں
پوٹوسی کے " مالدار پہاڑ " سے تقریبا 200 کلومیٹر مغرب میں 3ہزار میٹر سے زیادہ کی بلندی پر یونی سالٹ فلیٹ ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے لیتھیم ذخائر میں سے ایک ہے۔
لیتھیم، اپنی چاندی جیسی ظاہری شکل کے ساتھ، حالیہ برسوں میں بین الاقوامی منڈی میں ایک انتہائی مہنگا معدنی وسیلہ ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار کے مطابق، بولیویا کے لیتھیم کے ذخائر اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔
مارچ 2023 میں، بولیویا کے صدر لوئس آرس نے امریکی سدرن کمانڈ کی کمانڈر لورا رچرڈسن کی لیتھیم،کانوں کو ترقی دینے میں بولیویا اور دیگر لاطینی امریکی ممالک کی بین الاقوامی تعاون کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرنے پر مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مارکیٹ میں، خود مختار طریقے سے، قیمتوں کے ساتھ متحد ہونا چاہیے جو ہماری معیشتوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
حقیقی خوشحالی صرف حقیقی آزادی سے حاصل کی جا سکتی ہے، بولیویا کے لوگوں نے پوٹوسی کی تاریخ سے ایک گہرا سبق سیکھا ہے۔
بولیویا کے سابق وزیر خارجہ فرنینڈو ہواناکونی نے کہا تھا کہ غیر ملکی مداخلت اور تسلط کبھی بھی معاشی اور سماجی استحکام کا باعث نہیں بنے گا، جب کہ جنوب جنوب تعاون کی مضبوطی جمہوریت اور انضمام کے عمل کی کلید ہے۔
اگست 2023 کے آخر میں، اس اعلان کے بعد کہ برکس ممالک نے رکنیت کو توسیع دینے پر اتفاق کیا، بولیویا کے صدر آرس نے کہا کہ ان کا ملک برکس ممالک کا اسٹریٹجک پارٹنر بننے کی امید رکھتا ہے۔
ہواناکونی نے کہا کہ ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک ، برکس میں شمولیت سے اپنی قومی خودمختاری اور اقتصادی آزادی کی حفاظت کرتے ہوئے مشترکہ طور پر ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
میوزیم کے ڈائریکٹر لوئس آرنسیبیا کے مطابق بولیویا کی نیشنل منٹ میں اب سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ صرف نوآبادیات کی طرف سے ہمارے آبا اجداد اور اپنی زمین کو پہنچنے والے نقصان کو پہچان کر ہی ہم خود کو بہتر طور پر سمجھ اور ترقی کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔"