بیجنگ (شِنہوا) چینی محققین نے فرانس، جرمنی اور آئرلینڈ کے ہم منصبوں کے ساتھ ملکر دریافت کیا ہے کہ 65 کروڑ سے 28 کروڑ برس قبل کے سالوں کے درمیان زمین اور چاند کے مابین فاصلہ 20 ہزار کلومیٹر بڑھا جبکہ دن کی طوالت میں تقریبا 2.2 گھنٹے کا اضافہ ہوا۔
روزنامہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع شدہ ایک متعلقہ تحقیقی مضمون میں بتایا گیا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ زمینی گردش سست ہوتی رہی ہے تاہم اس سست روی کی شرح مستقل نہیں ہے۔
محققین نے 65 سے 24 کروڑ برس قبل کے درمیانی سالوں میں زمینی گردشی تاریخ کو ازسرنو تشکیل دینے کے لئے 8 زمینی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ جس کے نتائج سے وہ 65 کروڑ سے 28 کروڑ برس قبل تک کی زمینی سست روی میں طبعی ٹائڈل ماڈلز کی جانچ ے اور مرحلہ وار نمونے کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوئے۔
خاص کر 65 سے 50 کروڑ برس قبل اور 35 سے 28 کروڑ برس قبل کے سالوں دوران زمینی گردش میں انتہائی سست روی کے 2 ادوارکی نشاندہی ہوئی ہے جس میں 50 کروڑ سے 35 کروڑ برس قبل ایک الگ سے وقفہ ایسا بھی تھا جس میں سست روی معطل رہی۔
مضمون کے مطابق یہ دونوں ادوار تقریبا کیمبرین دھماکے اور زمینی تاریخ میں بڑے پیمانے پر معدومیت کے سب سے بڑے واقعے سے مماثلت رکھتے ہیں ان دونوں ادوار نے ابتدائی سمندری ماحولیاتی نظام کے ارتقا کے لئے ضروری ماحول فراہم کیا۔
تحقیقی مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ماڈلنگ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حالیہ عرصے کو چھوڑ کر زمینی گردش کو سست کرنے کا بنیادی محرک ٹائڈل ڈسپشن ہے۔
چھنگ دو یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ما چھاؤ نے بتایا کہ موسمیات، ماحول اور حیاتیاتی ارتقا پر زمینی گردش میں سست روی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے یہ تحقیق اہم نظریاتی اہمیت رکھتی ہے۔
ما نے کہا کہ محققین کی ٹیم زمینی گردش میں تبدیلیوں اور زمین کے مقناطیسی میدان، ٹائڈل ایکشن اور موسمیاتی تبدیلی جیسے قدرتی عوامل کے درمیان اندرونی روابط کا مزید مطالعہ کرے گی تاکہ زمینی نظام کے ارتقاء کا زیادہ جامع اور درست ماڈل تیار کیا جاسکے۔