بیجنگ (شِنہوا) چین نے شی زانگ سے متعلق امریکہ کی جانب سے قانون پر دستخط کی سختی سے مخالفت اور شدید احتجاج کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے 12 جولائی کو "تبت-چین تنازع ایکٹ پر مبنی حل کا فروغ " کے قانون پر دستخط کیے۔ یہ قانون دلائی گروپ کے "عظیم تر تبت" کے نام نہاد تصور کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی حکومت اور تبت امور کے لئے خصوصی امریکی رابطہ کار کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ چینی حکومت کی نام نہاد"تبت سے متعلق غلط معلومات" کا مقابلہ کریں۔امریکی صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ اس قانون سے تبت خود مختار خطے اور چین کے دیگر تبتی علاقوں کو عوامی جمہوریہ چین کا حصہ تسلیم کرنے کی دیرینہ امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس اقدام نے امریکی حکومت کے دیرینہ موقف اور وعدوں اور عالمی تعلقات سے متعلق بنیادی اصولوں کو بری طرح پامال کیا ہے، یہ چین کے داخلی امور میں سنگین مداخلت ہے جس سے چینی مفادات کو نقصان پہنچااور "تبت کی آزادی" کی حامی قوتوں کو غلط پیغام گیا ۔ چین نے اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے امریکہ سے اس پر احتجاج کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ شی زانگ قدیم زمانے سے چین کا حصہ رہا ہے۔ اس کے امور چین کا اندرونی معاملہ ہیں جس میں کوئی بیرونی قوت مداخلت نہیں کرسکتی۔ شی زانگ آج سماجی استحکام اور ہم آہنگی سے استفادہ کر رہا ہے جہاں اچھے معاشی حالات ہیں اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو اچھے طرح سے محفوظ بنایا گیا ہے۔شی زانگ اپنا معاشرہ مؤثر طریقے سے چلانے، سماجی استحکام برقرار رکھنے اور اعلیٰ معیار کی ترقی میں نئی پیشرفت کررہا ہے۔کسی بھی فرد یا قوت کی شی زانگ میں عدم استحکام پیدا کرکے چین کو روکنے اور دبانے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگی۔
ترجمان نے کہا کہ امریکہ پر چین زور دیتا ہے کہ وہ شی زانگ کو چین کا حصہ تسلیم کرنے اور تبت کی آزادی پسند قوتوں کی حمایت نہ کرنے کا وعدہ پورا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ امریکہ کو اس قانون پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیے تاہم اگر امریکہ نے غلط راستے پرچلنا بند نہ کیا تو چین اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے دفاع کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔