بیجنگ (شِنہوا) چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغورخودمختارعلاقے میں نام نہاد جبری مشقت کو 14 ویں قومی عوامی کانگریس کے جاری دوسرے سیشن میں ایک کھلے پینل مباحثے کے دوران سنکیانگ وفد کے نائبین نے مسترد کردیا۔
سنکیانگ کی کاؤنٹی لونتان کے گاؤں سیماہالا کے ایک اہلکار اکرم ممتمین نے میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مبینہ جبری مشقت سراسر جھوٹ اور بے معنی ہے، وہ اس وضاحت کے لئے اپنا تجربہ بیان کرسکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں کچھ غیر ملکی میڈیا ادارے سنکیانگ میں کپاس کی صنعت میں "جبری مزدوری" کی غلط فہمی کو بڑھاچڑھا کر پیش کررہے ہیں اور امریکہ نے سنکیانگ کی کپاس کی مصنوعات پر پابندیاں لگادی ہیں۔
اکرم ممتمین نے کہا کہ اس طرح کی میڈیا رپورٹس ناقابل فہم ہیں۔ 'کپاس ہمارے گاؤں کی اہم فصل ہے اور گزشتہ برس ہم نے 506 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر کپاس کی کاشت کی تھی۔ تکنیکی ترقی جیسے جراثیم کش ادویات کے چھڑکاؤ میں ڈرون کا استعمال اور کپاس کی بوائی میں سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کے استعمال کی بدولت کپاس کی کاشتکاری زیادہ آسان ہوچکی ہے۔
روایتی طور پر ایک کلو گرام کپاس چننے پر 2 یوآن (تقریباً 28 امریکی سینٹ) خرچ آتا ہے۔ ایک ہیکٹر کھیت پر 4 ہزار 500 کلوگرام کی پیداوار پر یہ خرچ 9 ہزار یوآن ہوگا جبکہ اس کے برعکس مشینی کپاس چننے پر صرف 2 ہزار 250 یوآن فی ہیکٹر لاگت آتی ہے۔
اکرم ممتمین کے مطابق ان اعدادوشمار کی موجود گی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں جبر کی ضرورت کیوں پیش آئے گی۔
انہوں نے سوال کیا کہ برف سے ڈھکی یہ سفید کپاس ہمارا ذریعہ آمدن ہے ، ہم ایک اچھی زندگی گزارتے ، گاڑیاں خریدتے ہیں اور کپاس کاشت کرکے جدید گھروں میں رہائش اختیار کرتے ہیں ۔ کیا ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے؟
ایک مقامی اہلکار، جن ژی ژین نے کہا کہ سنکیانگ کی کپاس کی پیداوار 2023 میں 50 لاکھ ٹن سے تجاوز کر گئی جو کل قومی پیداوار کے 90 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اس کی مشینی فصل کی شرح 85 فیصد سے تجاوز کر گئی۔
جن نے کہا کہ کپاس کی صنعت سنکیانگ کی اہم صنعتوں میں سے ایک ہے اور علاقے کے تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتی سلسلہ میں شامل تمام کمپنیاں اپنے ملازمین کے ساتھ چین کے لیبر قوانین اور لیبر کنٹریکٹ قانون کے مطابق معاہدوں پر دستخط کرتی ہیں تاکہ ان کی قانونی آمدنی اور سماجی تحفظ کے فوائد کی ضمانت دی جا سکے۔