بیجنگ (شِنہوا) چین اور رومانیہ کے محققین نے مشترکہ تحقیق میں یہ دریافت کیا ہے کہ شمسی تابکاری زمین کی گہرائی پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع یہ تحقیق چینی اکیڈمی برائے سائنس کے تحت انسٹی ٹیوٹ آف جیولوجی اینڈ جیوفزکس، چائنہ یونیورسٹی آف جیو سائنسز اور جامعہ بخارسٹ سے وابستہ محققین نے کی۔
محققین کے مطابق شمسی تابکاری طول بلد کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے جس سے سمندری سطح پر درجہ حرارت میں کمی ہوتی ہے جو سمندری حیات کے مختلف حصوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کاربن سے مالا مال یہ مخلوق سمندری پلیٹوں کی مدد سے زمین کے اندرونی حصے میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ عمل آرک میگما کی خصوصیات کو نمایاں طریقے سے متاثر کرتا ہے۔
محققین نے دنیا بھر کے ماہرین ارضیات کے جمع کردہ ہزاروں میگما نمونوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جن میں زمین اور سمندری گہرائیوں سے حاصل کردہ نمونے بھی شامل تھے۔ انہوں نے آرک میگما کی ریڈوکس حالت کا تعین کرنے کے لئے اولیوین معدنیات اور بڑی چٹان میں پگھلے ہوئے چھوٹے اجزاء کا جائزہ لیا۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زمین کے طول سے نچلے خطوں میں میگما بالائی طول والے علاقوں کی نسبت کم آکسیڈائزڈ ہوتا ہے۔ سمندری تہہ کے مطالعے سے حاصل شدہ اضافی شواہد یہ بتاتے ہیں نچلے طول میں موجود کاربن ذخائر میں زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کاربن سلفر کے ساتھ ملاپ کرکے سلفائیڈ بناتا ہے جسے پھر تہہ میں منتقل کردیتا ہے جو مشاہدے میں آنے والے ریڈوکس پیٹرن کا حصہ بنتے ہیں۔
تحقیق کے شریک مصنف اور آئی جی جی کے محقق وان بو کا کہنا ہے کہ یہ غیرمتوقع نمونے بتاتے ہیں کہ زمینی سطح کا ماحول اور آب و ہوا شمسی تابکاری سے متاثر ہوکر تہہ کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
بہت سے دھاتی اجزاء جیسے تانبا، ٹن اور لیتھیم ، ریڈوکس حالات کے لئے کافی حساس ہیں۔ اہم وسائل کے مقامات اور دستیابی کی پیش گوئی کے لئے گلوبل سبڈکشن زونز میں ریڈوکس حالت کی مقامی اور عارضی تقسیم کو سمجھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
مطالعے کے متعلقہ مصنف اور آئی جی جی کے محقق ہو فانگ یانگ نے کہا کہ مشاہدہ کردہ نمونے وسائل کی تلاش اور مختلف طول وبلد سبڈکشن سسٹم پر ماحولیاتی اثرات کو سمجھنے میں نئی سمت فراہم کریں گے۔