چین نے 2026 سے 2030 تک کی صنعتی ترقی کا نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی، تحقیق اور اختراع کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کے لیے موقع پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے خصوصی اقتصادی زونز کو جدید، ٹیکنالوجی پر مبنی پیداوار کی جانب لے جائے۔چین کے نئے صنعتی منصوبے میں نئی توانائی، خلائی ٹیکنالوجی، کوانٹم ٹیکنالوجی، بایو مینوفیکچرنگ، ہائیڈروجن اور فیوژن انرجی، کمپیوٹر رابطے، اور 6 جی جیسے نئے شعبوں کو فروغ دینے کا ہدف شامل ہے۔ اگر پاکستان اپنی صنعتی پالیسی کو چین کے ان شعبوں کے مطابق ڈھال لے تو وہ روایتی تعمیراتی ترقی سے آگے بڑھ کر ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کی طرف آ سکتا ہے۔سی پیک کے پہلے مرحلے میں پاکستان نے زیادہ توجہ سڑکوں، توانائی منصوبوں اور لاجسٹکس پر دی تھی، لیکن صنعتوں کی جدید کاری محدود رہی۔ چین کا نیا مرحلہ اب ترقی یافتہ صنعتوں، ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے پر زور دیتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اپنے زونز میں ٹیکنالوجی، تحقیق اور ہنر کی شمولیت بڑھانی ہوگی۔چین کی پالیسی میں روایتی صنعتوں کو بہتر کرنے اور نئی صنعتوں جیسے نئی مٹیریل، کم بلندی کی معیشت، اور مستقبل کی ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔
پاکستان کے نو بڑے زون رشکئی، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی، دھابیجی، بوستان اور فیصل آباد M-3 کو اگر کم ہنرمند صنعتوں سے نکل کر جدید ٹیکنالوجی والی صنعتوں کی طرف جائیں تو زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ڈاکٹر ناصر اقبال نے کہا کہ سیالکوٹ، لاہور اور کراچی کی موجودہ صنعتی منڈیوں کو نئے علاقائی ویلیو چینز کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ چین سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو مالی ادائیگیوں کے مسائل، کسٹم کلیئرنس اور کاروبار میں آسانی جیسے رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو اے آئی روبوٹکس اور جدید صنعتوں میں چین کی طرح توجہ دینی چاہیے۔ عام سبسڈی دینے سے فائدہ نہیں ہوتابلکہ ہدفی اور مخصوص پالیسیوں کی ضرورت ہے، جیسے اے آئی سے متعلق برآمدات میں سہولتیں دینا ہے۔چین کا نیا منصوبہ ٹیکنالوجی کو معیشت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ پاکستان یہ ماڈل اپنا کر زونز کے قریب ٹیکنالوجی پارکس، ٹیسٹنگ سینٹرز اور تحقیقاتی ادارے قائم کر سکتا ہے، جہاں روبوٹکس، الیکٹرک گاڑیوں اور ڈیجیٹل لاجسٹکس پہ تحقیق ہو۔ اس سے ہنرمند نوکریاں پیدا ہوں گی اور مقامی صنعتوں کو نئی ٹیکنالوجی ملے گی۔انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کی نبیلہ جعفر کے مطابق پاکستان کو چین کے جدید منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی۔
اس کے لیے گورننس بہتر بنانا، ڈیجیٹل نظام لانا اور شفافیت بڑھانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرونکس، مائننگ، ای وی پرزہ جات اور قابل تجدید توانائی میں چین کے ساتھ مشترکہ منصوبے پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔اگر چین کی ہائی ٹیک صنعتیں پاکستان منتقل ہوئیں تو مشترکہ منصوبوں اور ٹیلنٹ ایکسچینج کے ذریعے علم اور مہارت بھی پاکستان آئے گی۔چین کے کاربن نیوٹرل اہداف کی وجہ سے اس کی بیرونی سرمایہ کاری بھی ماحول دوست منصوبوں کی طرف جائے گی۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے "گرین انڈسٹریل زونز" بنا سکتا ہے، جہاں بجلی قابل تجدید توانائی سے ملے اور ری سائیکلنگ سسٹم موجود ہوں۔چین کی سپلائی چین میں شامل ہونے کا بھی بڑا موقع ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان چین کے قریب ہے اور گوادر کے ذریعے مڈل ایسٹ تک رسائی رکھتا ہے۔ اگر پاکستان کسٹمز کو تیز، ٹرانسپورٹ بہتر اور تجارتی نظام جدید بنا لے تو وہ ایک اہم مینوفیکچرنگ اور لاجسٹکس مرکز بن سکتا ہے۔فنانسنگ بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
پاکستان اور چین مشترکہ مالیاتی پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں تاکہ ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں میں سرمایہ لگ سکے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے سولرای وی اور ٹیلی کام پارٹس کی مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔سرمایہ کاروں کو لانے کے لیے زونز میں منظوری کے مراحل آسان، ٹیکس سادہ، اور بجلی و گیس کی فراہمی قابلِ بھروسہ ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی ٹیکنیکل ٹریننگ کو چین کی جدید صنعتوں کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ پاکستانی افرادی قوت نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کر سکے۔ چین کی یہ صنعتی تبدیلی دنیا بھر میں جدت اور پائیداری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پاکستان اگر اپنی اقتصادی زون پالیسی کو چین کے نئے صنعتی منصوبے کے مطابق ڈھال لے تو وہ اپنی صنعت کو جدید بنا سکتا ہے، برآمدات بڑھا سکتا ہے، اور ہنرمند روزگار پیدا کر سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں سی پیک کا نیا مرحلہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ پاکستان اپنے زونز کو روایتی منصوبوں سے نکال کر جدید ٹیکنالوجی کے مراکز کیسے بناتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک