دہائیوں سے بین الاقوامی برانڈز کو اپنی مصنوعات فراہم کرنے کے باوجودفیصل آباد کے کاروباری افراد توجہ کی کمی کی وجہ سے بظاہر عالمی سطح پر اپنے برانڈز قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور پاکستانی برانڈ چین ون کے بانی میاں لطیف نے کہاکہ ہمارے کاروباری افراد بین الاقوامی برانڈز لانچ کرنے کے بجائے مقامی طور پر فیبرک برانڈز کے قیام پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ویلتھ پاکستان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں قسمت آزمائی کی اور وہاں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک سرگرم رہے لیکن ہم چین ون آپریشن کو برقرار نہ رکھ سکے اور بالآخر اسے بند کرنا پڑا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت کو بین الاقوامی برانڈز کے قیام میں پرائیویٹ سیکٹر کی مدد کرنی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ حکومت کو براہ راست مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برانڈز کو لانچ کرنا کاروباری افراد کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔ حکومت کو جو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ سستی بجلی، گیس اور خام مال کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ برآمد کنندگان سے بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت کے لیے جمع کیے گئے فنڈز جس کا مقصد نئی منڈیوں کو تلاش کرنا تھا اکثر اس مشن کے ذمہ دار بیوروکریٹس کی آسائشوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔میاں لطیف نے کہا کہ بیوروکریٹس کو بین الاقوامی نمائشوں میں کامیابی کے واضح اہداف دیئے جائیں اور ناکامی کی صورت میں ان کا احتساب کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ تاجروں کو اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں کوئی حکومتی تعاون نہیں ملا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے اسٹورز کو بین الاقوامی سطح پر ترقی دینے یا اپنے برانڈز کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ایک گارمنٹ ایکسپورٹرسلامت علی نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ وہ کئی دہائیوں سے متعدد کلائنٹس کو مصنوعات فراہم کر رہے ہیںلیکن بین الاقوامی سطح پر اپنا برانڈ لانچ کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی۔انہوں نے کہا کہ اگر فیصل آباد کے تاجر بین الاقوامی برانڈز کے معیارات پر پورا اترتے ہیں تو یقینا وہ اپنے برانڈز کے لیے بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تاجروں کو اپنے برانڈز کو عالمی سطح پر لانچ کرنے کے لیے سخت کوششیں کرنی ہوں گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک