i آئی این پی ویلتھ پی کے

غیر موثر عمارتوں کے ڈیزائن پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی کھپت کا سبب،ویلتھ پاکستانتازترین

December 01, 2025

ماہرین کے مطابق پاکستان میں عمارتوں کے موجودہ ڈیزائن اور تعمیراتی انداز توانائی اور بجلی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی بڑی وجہ ہیں، کیونکہ عمارتیں ایسی بن رہی ہیں جن میں گرمی روکنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور انہیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے مشینی طریقوں پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ماہرین نے بتایا کہ مٹی کی اینٹیں اور کنکریٹ جیسے تعمیراتی مواد گرمی کو تیزی سے گزار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے دیواروں اور چھتوں کے ذریعے عمارتوں میں بہت زیادہ حرارت داخل ہوتی ہے۔ڈاکٹر جاوید یونس اپل، سابق صدر انجینیئرز ادارہ پاکستان نے کہا کہ آج کل کے جدید گھر بڑے شیشوں اور بیرونی نظاروں پر توجہ دیتے ہیں، جبکہ روایتی گھروں میں اندرونی صحن اور سایہ دار جگہیں ہوتی تھیں جو قدرتی طور پر ٹھنڈک دیتی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ بدلتی ہوئی طرزِ زندگی اور گھروں کے بڑے سائز کی وجہ سے برقی آلات خصوصا اسپلٹ اے سی کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، جس سے بجلی کی طلب میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بہت سی عمارتیں بغیر توانائی کے اصولوں کے بنائی جا رہی ہیں جو پاکستان کے موسم کے مطابق نہیں ہوتیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کنکریٹ کی عمارتیں بڑھنے اور شہروں میں درختوں کی کمی کے باعث شہری علاقوں میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھروں میں مزید ٹھنڈک کی ضرورت پڑتی ہے۔

ڈاکٹر اپل نے کہا کہ اس طرح کی عمارتیں مکمل طور پر اے سی، ہیٹنگ اور وینٹیلیشن کے سسٹمز پر انحصار کرتی ہیں، جس سے بہت زیادہ توانائی ضائع ہوتی ہے اور ملک میں بجلی کے بحران اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ان کے مطابق اگر پاکستان بلڈنگ کوڈ پر سختی سے عمل کیا جائے تو توانائی کے استعمال میں بڑی کمی لائی جا سکتی ہے۔ مختلف مطالعات کے مطابق 18 سے 37 فیصد تک توانائی بچائی جا سکتی ہے، جبکہ حکومت کے مطابق نئے قوانین پر مکمل عمل سے 60 فیصد بجلی بچائی جا سکتی ہے۔پاکستان کا انرجی کنزرویشن بلڈنگ کوڈ اور پہلے کا کوڈاس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں تاکہ عمارتوں کو زیادہ توانائی بچانے والی بنایا جا سکے۔ اس میں بہتر تعمیراتی ڈھانچے، موثر آلات اور قابلِ تجدید توانائی کے استعمال کی تجاویز شامل ہیں۔ڈاکٹر اپل نے لازمی عمارتوں کے توانائی کوڈز نافذ کرنے اور قومی سطح کے اہداف پورے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیکس میں سہولت، آسان قرض اور سبسڈی دینی چاہیے تاکہ لوگ سولر پینلز اور ہیٹ پمپ جیسے مثر آلات لگا سکیں۔توانائی کے ماہرین کے مطابق مختلف حکومتوں نے بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس تو بڑھا دییجو اب 46,000 میگاواٹ تک پہنچ چکے ہیںلیکن اس سے صرف گرمیوں کے چند دنوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے جب بجلی کی طلب 32,000 میگاواٹ تک پہنچتی ہے۔نیشنل گرڈ کمپنی کے چیئرمین ڈاکٹر فیاض احمد چوہدری نے کہا کہ اس سے صلاحیتی ادائیگیوں میں بہت اضافہ ہوا ہے جو اب 2,000 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سردیوں میں بجلی کی طلب رات کو 8,500 میگاواٹ سے دن میں 14,300 میگاواٹ تک ہوتی ہے، لیکن گرمیوں میں غیر مثر عمارتوں کی وجہ سے 16,800 میگاواٹ کا اضافی لوڈ بڑھ جاتا ہے۔ رہائشی اور تجارتی شعبے مجموعی لوڈ کا 60 فیصد حصہ ہوتے ہیں۔ڈاکٹر چوہدری کے مطابق اگر عمارتیں توانائی بچانے والی بنائی جائیں تو سال بھر بجلی کی طلب کم ہو سکتی ہے اور ملک مسلسل بڑھتے ہوئے گردشی قرضے سے بچ سکتا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک