چین کے نئے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے (20262030) کے لیے دی گئی سفارشات نہ صرف چین کی ترقی بلکہ پوری دنیا کی معیشت پر اثر ڈالیں گی۔ یہ منصوبہ چین کے 2035 تک جدید ملک بننے کے ہدف کے لیے ایک اہم مرحلہ ہے۔یہ سفارشات چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں منظور ہوئیں۔ ان میں جدت، ماحول دوست ترقی اور عالمی سطح پر کھلے پن کی پالیسیوں پر زور دیا گیا ہے جو دنیا بھر میں تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے تعاون کو بدل سکتی ہیں۔دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے باعث چین کی پالیسیاں عالمی سپلائی چین، اجناس کی قیمتوں اور سرمایہ کاری کے بہا پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔ نیا منصوبہ کم لاگت پیداوار سے ہٹ کر جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل صنعتوں اور صاف توانائی کی طرف جانے کی حکمتِ عملی پیش کرتا ہے۔ اس سے دوسرے ممالک کے لیے سبز مالیات، سائنسی تحقیق، صاف صنعت سازی اور ڈیجیٹل ترقی میں تعاون کے نئے دروازے کھلیں گے۔چین نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت کو منصوبے کا اہم حصہ بنایا ہے۔ وہ جدید ٹیکنالوجیز جیسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، کوانٹم کمپیوٹنگ، ہائیڈروجن توانائی، بایو مینوفیکچرنگ اور 6جی نیٹ ورکس پر خاص توجہ دے رہا ہے۔
اس سے دوسرے ممالک کو مشترکہ ریسرچ، لیبارٹریز اور تکنیکی تعاون کے مواقع ملیں گے۔منصوبے میں ماحول دوست ترقی اور کاربن کم کرنے پر بھی زور ہے۔ چین بڑے پیمانے پر قابلِ تجدید توانائی، ماحول کی بحالی اور ری سائیکلنگ نظام کو فروغ دے گا جس سے دنیا بھر میں صاف توانائی کے منصوبے تیز ہو سکتے ہیں۔ چین کی مالیاتی ادارے پہلے ہی سبز منصوبوں کے بڑے سرمایہ کار ہیں اور آئندہ مزید سرمایہ کاری کی توقع ہے۔چین بین الاقوامی تجارت اور مالیات میں بھی تبدیلی لا رہا ہے۔ وہ آر ایم بی کرنسی کے عالمی استعمال کو بڑھانا چاہتا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے کاروباری اخراجات اور کرنسی رسک کم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین ڈیجیٹل فنانس اور سرحد پار ادائیگیوں کے نظام کو جدید بنا رہا ہے جس سے ایسے ممالک کو فائدہ ہوگا جو روایتی مالیاتی نظام تک آسان رسائی نہیں رکھتے۔چین نے اپنی مارکیٹ کو مزید کھولنے کا اعلان بھی کیا ہے، خاص طور پر ڈیجیٹل سروسز، صحت، تعلیم اور مالیاتی سیکٹر کے لیے۔ اس سے دنیا کے ممالک کو چین کی بڑی مارکیٹ تک رسائی ملے گی اور ترقی پذیر ممالک اپنی برآمدات بڑھا سکیں گے۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بھی نئے دور میں داخل ہوگا جہاں اب ماحول دوست، ڈیجیٹل اور صحت سے متعلق تعاون کو ترجیح دی جائے گی۔ اس سے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کو سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ملے گی۔
چین کی صنعتی اپ گریڈیشن کے نتیجے میں بہت سے مزدور بھر روزگار والے شعبے ترقی پذیر ممالک کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں جس سے ان ممالک کو نئی صنعتیں لگانے کے مواقع ملیں گے۔چین عالمی تعاون کو بھی مضبوط کر رہا ہے، جیسے کہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سِولائزیشن انیشی ایٹو، جو امن، ترقی اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔اگر دوسرے ممالک اس منصوبے کو مقابلے کی بجائے تعاون کے موقع کے طور پر دیکھیں تو وہ عالمی معیشت میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا سکتے ہیں۔ آنے والے پانچ سال عالمی ترقی کے لیے بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر کریم خان نے کہا کہ چین کا 20262030 منصوبہ جدت، صاف توانائی اور ڈیجیٹل تبدیلی پر مبنی ہیجو پاکستان کے لیے بڑی موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ چین کے جدید ٹیکنالوجی نظام سے فائدہ اٹھا سکے۔سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ چین کی مالیاتی اصلاحات اور آر ایم بی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے پاکستان کو تجارت میں کرنسی رسک اور اخراجات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیاں مضبوط کرے تاکہ وہ چین کے ساتھ نئے منصوبوں سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک