لاہور کی کھانے پینے اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں مشکل میں ہیں کیونکہ ان میں اب بھی کوئلہ اور دوسرے آلودگی پھیلانے والے ایندھن استعمال کیے جاتے ہیں۔ویلتھ پاکستان سے بات کرتے ہوئے، شفاقت علی، جو ایک ویونگ یونٹ کے مالک ہیں، نے بتایا کہ زیادہ تر چھوٹی اور درمیانی ٹیکسٹائل فیکٹریاں پرانے بوائلر اور کوئلہ استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صاف توانائی پر منتقل ہونا چھوٹی صنعتوں کے لیے بہت مہنگا اور مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے بڑی سرمایہ کاری درکار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی بجلی کے زیادہ بل، برآمدات میں کمی اور عالمی مقابلے جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔انہوں نے کہا، ہم ماحول کے لیے بہتر کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت کو ہمیں مالی مدد اور سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ ہم یہ کر سکیں۔شفاقت علی نے بتایا کہ ان کے سائزنگ یونٹ جہاں کپڑے کے دھاگے تیار کیے جاتے ہیںنے سپلائی روک دی ہے کیونکہ محکمہ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ دھواں نکلنے کی صورت میں فیکٹری بند کر دی جائے گی۔ زیادہ تر یونٹ مکئی کے ڈنٹھل، لکڑی یا دیگر ایندھن استعمال کرتے ہیں کیونکہ گیس مہنگی اور کمیاب ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ماحولیات کو کچھ نرمی دکھانی چاہیے کیونکہ ہزاروں لوگ ان فیکٹریوں پر روزگار کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ اگر یہ یونٹ بند ہو گئے تو بے روزگاری بڑھے گی اور صنعت مزید نقصان اٹھائے گی۔
محمد دلاور، جو رحمان پورہ میں ایک ہوٹل کے مالک ہیں، نے بتایا کہ محکمہ ماحولیات نے ان کو کوئلہ استعمال نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کوئلے کے باربی کیو بنانا ممکن نہیں اس لیے انہوں نے یہ آئٹم بند کر دیا ہے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ ہم نے برسوں محنت کی ہے، لیکن ہر سردی کے موسم سے پہلے ہم پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ لاہور کی روایتی کھانے پینے کی صنعت ایک مشکل موڑ پر ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ گیس سلنڈر استعمال کر رہے ہیں، لیکن ہر کھانا اس پر نہیں پکایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی صاف ماحول چاہتے ہیں، مگر کاروبار بند کرنا حل نہیں۔محکمہ ماحولیات کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پنجاب حکومت ہر اس صنعت پر نظر رکھے ہوئے ہے جو آلودگی پھیلا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان لوگوں کو برداشت نہیں کرے گی جو شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کئی فیکٹریوں کو ایک مانیٹرنگ سسٹم سے جوڑ دیا گیا ہے تاکہ دھوئیں پر نظر رکھی جا سکے، اور ہدایت کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ صرف بہتر ٹیکنالوجی، صاف توانائی اور حکومت و صنعتوں کے تعاون سے ہی لاہور دوبارہ صاف ہوا میں سانس لے سکے گا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک