i آئی این پی ویلتھ پی کے

والیٹس اور کیو آر کوڈز نے پاکستان کی ای کامرس کو بدل دیا ہے : ویلتھ پاکستانتازترین

November 07, 2025

مالی سال 2024-25 میں پاکستان کے ریٹیل ادائیگیوں کے نظام میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ صارفین اور دکانداروں نے کارڈ کے بجائے والیٹ اور اکاونٹ سے اکاونٹ کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگیوں کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ای کامرس کی 93 فیصد ادائگیاں ڈیجیٹل والیٹس اور بینک اکاونٹس کے ذریعے ہوئیں جبکہ صرف 7 فیصد ادائیگیاں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ سے کی گئیں۔اس مالی سال کے دوران پوائنٹ آف سیل مشینوں میں 56 فیصد اضافہ ہوا جو 195,849 تک پہنچ گئیںجبکہ کیو آر کوڈ استعمال کرنے والے دکانداروں کی تعداد 10 لاکھ سے بڑھ کر 10 لاکھ 90 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان کم لاگت والے ڈیجیٹل ادائیگی کے نظاموں کے فروغ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان تمام ذرائع کے ذریعے روزانہ دس لاکھ سے زیادہ ٹرانزیکشنز ہوئیں جن کی مالیت تقریبا 2.1 ٹریلین روپے رہی جو پچھلے سال کے مقابلے میں 39 فیصد زیادہ حجم اور 37 فیصد زیادہ مالیت ہے۔رپورٹ کے مطابق، سافٹ پوائنٹ آف سیل ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے جو عام اسمارٹ فون کو ادائیگی قبول کرنے والے ٹول میں بدل دیتی ہے۔ اس سے مہنگے آلات کی ضرورت ختم ہو گئی اور بینکوں اور فِن ٹیک کمپنیوں نے ہزاروں چھوٹے دکانداروں، کھانے پینے کی دکانوں اور سروس فراہم کرنے والوں کو ڈیجیٹل مارکیٹ میں شامل ہونے میں مدد دی۔اگرچہ ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد 9 فیصد بڑھ کر 5 کروڑ 30 لاکھ اور کریڈٹ کارڈز کی تعداد 8 فیصد بڑھ کر 22 لاکھ ہو گئی لیکن مجموعی ڈیجیٹل خرچ میں ان کا حصہ مزید کم ہو گیا۔ صارفین کیو آر کوڈ یا والیٹ کے ذریعے ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں

کیونکہ یہ فوری طور پر مکمل ہو جاتی ہے، اضافی فیس نہیں لگتی اور موبائل بینکنگ ایپس کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2024-25 میں دکانداروں کو بااختیار بنانا ایک اہم پیش رفت تھی۔ پہلے ڈیجیٹل ادائیگیاں صرف بڑی دکانوں تک محدود تھیںلیکن اب یہ سڑک کنارے دکانداروں اور محلوں کی دکانوں تک پھیل گئی ہیں۔ دکاندار تیز ادائیگیوں اور ڈیجیٹل ریکارڈز کی بدولت آسانی سے قرض حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سال 30 سے زیادہ بینکوں اور پیمنٹ سروس فراہم کرنے والوں نے دکانداروں کو ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام میں شامل کرنے کی مہم میں حصہ لیا۔ماہرینِ معیشت کے مطابق والیٹس اور کیو آر کوڈز کا بڑھتا ہوا استعمال ملکی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ نقد رقم کے کم استعمال سے چوری اور نقصان کے خطرات کم ہوں گے جبکہ درست ریکارڈ رکھنے سے ٹیکس کی وصولی بہتر اور کاروبار زیادہ منظم ہوں گے۔ اس کے علاوہ، مقامی ادائیگی کے نظام کے استعمال سے پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہوگی جو بین الاقوامی کارڈ نیٹ ورکس کو فیس کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مالی سال 2025-26 میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی مزید ترقی متوقع ہے کیونکہ مختلف والیٹ سروسز کے درمیان رابطہ بڑھ رہا ہے اور دکانداروں کو ڈیجیٹل ادائیگی قبول کرنے کے لیے مزید ترغیبات دی جا رہی ہیں۔ پائلٹ منصوبے جاری ہیں جن کے تحت "راست" سسٹم کے ذریعے ادائیگیوں کو براہِ راست دکانداروں کے اکاونٹنگ سسٹم سے جوڑا جائے گا تاکہ عمل کو مزید آسان بنایا جا سکے۔اسٹیٹ بینک کے حکام کے مطابق پاکستان 2028 تک مکمل طور پر ڈیجیٹل ریٹیل ادائیگیوں کے نظام تک پہنچنے کے راستے پر ہے، جو ڈیجیٹل پاکستان وژن کا ایک اہم ہدف ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک