پاکستان نے کوریا انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کو ایک بڑا زرعی منصوبہ بھیجا ہیجس کا مقصد جدید بیج آلو کی پیداوار اور سپلائی سینٹر قائم کرنا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد درآمدی بیج پر انحصار کم کرنا اور ملک کے سرٹیفکیشن اور اسٹوریج نظام کو بہتر بنانا ہے۔دستاویز کے مطابق، اس منصوبے سے پاکستان کی درآمدی بیج آلو پر 70 سے 80 فیصد تک کم انحصار ہو جائے گا جبکہ ملک بھر کے 1 لاکھ سے زائد آلو کاشتکاروں کی پیداوار اور منافع میں اضافہ ہوگا۔ معیاری اور تصدیق شدہ بیج کے ذریعے زیادہ پیداوار، کم اخراجات اور بہتر غذائی تحفظ مل سکے گا۔یہ چار سالہ منصوبہ 2027 سے 2030 تک جاری رہے گاجس میں کوریا انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی جانب سے 10 ملین ڈالر کی فنڈنگ شامل ہے جبکہ پاکستان حکومت 2.8 ملین ڈالر کی تکنیکی و انتظامی مدد فراہم کرے گی۔منصوبے کا نام سیڈ پوٹیٹو پروڈکشن اینڈ سپلائی سنٹر ہے اور یہ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر اسلام آباد میں قائم کیا جائے گا۔
یہاں آلو کے وائرس فری بیج ٹشو کلچر اور ایروپونکس ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کیے جائیں گیجنہیں آج کل پاکستان مہنگے داموں درآمد کرتا ہے۔یہ مرکز بیج آلو کی پوری ویلیو چین کو جدید بنانے میں مدد دے گا۔جدید کولڈ چین نظام جس سے نقصان 2530 فیصد کم ہوگا۔ملک بھر کے لیے ڈیجیٹل سرٹیفکیشن اور ٹریس ایبلیٹی سسٹم تاکہ بیج کی کوالٹی کنٹرول بہتر ہو۔فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بہتر رابطہ ہو گا،منصوبے میں نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری بڑھانے، بیج کی افزائش و تقسیم کو فروغ دینے اور کسانوں و عملے کی ٹریننگ بھی شامل ہے۔ کم از کم 1600 افراد کو ایروپونکس، ٹشو کلچر، کولڈ چین، بیج ٹریس ایبلیٹی اور بہتر زرعی طریقوں کی تربیت دی جائے گی۔نئے سینٹر میں 8 ایروپونک سسٹمز (25,000 پودوں کی گنجائش130 اسکرین ہاسز (12 ہیکٹر رقبہ)جدید کولڈ اسٹوریج3,500 مربع میٹر لیبارٹریاں شامل ہوں گی جوٹشو کلچر، بیماریوں، جینیاتی بہتری اور مٹی کے تجزیے کے لیے کام کریں گی۔
منصوبہ اس وقت کوریا انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کے جائزے میں ہیاور تکنیکی و مالی منظوری کے بعد اس کی حتمی منظوری دی جائے گی۔اس سے پہلے بھی کوریا پاکستان میں 8 ایروپونک یونٹس، 36 اسکرین ہاسز اور ایک کولڈ اسٹوریج قائم کرنے میں مدد دے چکا ہے۔ نیا منصوبہ انہی کامیابیوں کو مزید آگے بڑھائے گا۔پاکستان میں آلو کی کاشت 953,805 ایکڑ پر ہوتی ہے اور سالانہ پیداوار تقریبا 94 لاکھ ٹن ہے۔ ملک کو ہر سال 9 لاکھ ٹن تصدیق شدہ بیج آلو کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اس کا صرف 2 فیصد ملک میں تیار ہوتا ہے۔ نتیجتا پاکستان نے 2019 سے 2024 تک ہر سال 7,000 سے 14,000 ٹن بیج درآمد کیا، جس پر 3 سے 4 ارب روپے خرچ ہوئے، زیادہ تر نیدرلینڈز سے۔پاکستان میں چار اقسام ہیں مگر معیاری بیج کی کمی پیداوار میں رکاوٹ بنتی ہے۔ پہلے ہی کوریا کی مدد سے ایروپونکس کے ذریعے وائرس فری بیج تیار کیے جا رہے ہیں جو 202425 کے سیزن کے لیے کسانوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ ان کوششوں سے پیداوار میں 20 فیصد اضافہ اور آئندہ ملکی بیج کی 30 فیصد ضرورت پوری کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک