i آئی این پی ویلتھ پی کے

سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ کو فوری مرمت اور بہتری کی ضرورت: ویلتھ پاکستانتازترین

October 29, 2025

سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ کی بگڑتی ہوئی حالت نے صوبے میں صنعتوں کی ترقی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے صنعتی علاقوں میں ٹوٹی سڑکیں، بند نالے اور غیر یقینی یوٹیلیٹی سہولتیں عام ہو گئی ہیں۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صوبے میں صنعتی سرگرمیاں مزید کم ہو جائیں گی، برآمدات گھٹیں گی اور بے روزگاری بڑھے گی۔ کراچی کے سائیٹ علاقے میں کئی سڑکیں گڑھوں اور کھلے مین ہولز سے بھری ہیں، ہلکی بارش کے بعد نالے ابل پڑتے ہیں، اسٹریٹ لائٹس غائب ہیں اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ صنعت کار احمد مسرت نے کہا، ہم ایسی فیکٹریاں چلا رہے ہیں جیسے کسی جنگ زدہ علاقے میں ہوں۔ ٹرکوں کو راستہ نہیں ملتا، سامان تاخیر سے پہنچتا ہے اور مزدور غیر محفوظ حالات میں کام کرتے ہیں۔ اسی طرح کی شکایات حیدرآباد اور سکھر کے صنعتی علاقوں سے بھی سامنے آئی ہیں جہاں بجلی اور گیس کی کمی اور پانی کی خراب پائپ لائنز نے صورتحال مزید خراب کر دی ہے۔ حیدرآباد چیمبر آف کامرس کے رکن لطیف جمانی کے مطابق، ہم کئی بار سندھ حکومت سے مدد کی اپیل کر چکے ہیں۔ یہ صنعتی شعبے کے لیے ایک معاشی ہنگامی صورتحال بن چکی ہے۔ ان صنعتی علاقوں میں موجود فیکٹریاں اربوں روپے کے ٹیکس دیتی ہیں اور ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہیںلیکن خراب انفراسٹرکچر کی وجہ سے ان کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور پیداوار کم ہو گئی ہے۔ احمد مسرت نے کہاکہ کارخانے اب اپنے پانی صاف کرنے کے پلانٹ، بجلی کے جنریٹر اور کچرا ٹھکانے لگانے کے نظام خود بنا رہے ہیںجس سے لاگت بڑھ جاتی ہے اور ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں غیر مسابقتی ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ حالات برقرار رہے تو سندھ کی صنعتی زونز اپنی اہمیت کھو دیں گی اور پنجاب و خیبرپختونخوا کے نئے صنعتی علاقوں سے پیچھے رہ جائیں گی۔ اس سال کے آغاز میں سندھ حکومت نے سڑکوں کی مرمت، نالوں کی صفائی اور لائٹس کی تنصیب کے لیے 1.1 ارب روپے کے منصوبے منظور کیے تھے لیکن ترقیاتی کام بہت سست روی کا شکار ہیں۔ لطیف جمانی نے اس کی وجہ بیوروکریسی کی تاخیر اور سائیٹ لمیٹڈ اور بلدیاتی اداروں کے درمیان رابطے کی کمی کو قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ فنڈز یا منصوبوں کی کمی کا نہیں، عملدرآمد کا ہے۔ منصوبے اعلان کے وقت اچھے لگتے ہیں مگر مکمل نہیں ہوتے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت سندھ ایک جامع منصوبہ بنائے جو پانچ ترجیحی شعبوں پر توجہ دے جن میںقابلِ اعتماد یوٹیلیٹیز بجلی، گیس، پانی،سڑکوں اور نالوں کی مرمت،کچرا منیجمنٹ، قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی،شفاف گورننس شامل ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حکومت کو منصوبوں کی تفصیلات اور پیش رفت عوام کے سامنے لانی چاہیے اور ایک مشترکہ کمیٹی بنانی چاہیے جس میں سرکاری افسران، صنعت کار اور شہری ماہرین شامل ہوں تاکہ نگرانی کی جا سکے۔ احمد مسرت نے زور دیا کہ سندھ کے صنعتی علاقے، خاص طور پر سائیٹ کراچی، پاکستان کی مینوفیکچرنگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، مگر ان کی خرابی انہیں اثاثہ کے بجائے بوجھ بنا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو سندھ کی صنعتیں اپنی مسابقتی برتری کھو دیں گی۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک