امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی)نے پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم کو اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر لیا ، ان پر الزام ہے کہ وہ 2007 میں ریٹائرڈ ایف بی آئی ایجنٹ رابرٹ اے باب لیونسن کے اغوا میں ملوث تھے، باب لیونسن ایران کے جزیرہ کِش سے لاپتا ہوگئے تھے۔غیرملکی میڈیارپورٹ کے مطابق ایف بی آئی کے واشنگٹن فیلڈ آفس کی جانب سے گزشتہ روز پوسٹرز جاری کئے گئے جن میں ایران کے 3 اعلی انٹیلی جنس افسران کی شناخت کی گئی، جن پر باب لیونسن کی گمشدگی اور تہران کی اس میں مبینہ شمولیت کو چھپانے کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔رضا امیری مقدم، جنہیں احمد امیرینیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ماضی میں ایران کی وزارتِ انٹیلی جنس و سلامتی (ایم او آئی ایس ) کے آپریشنز یونٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں، اور اس دوران انہوں نے یورپ بھر میں کام کرنے والے ایجنٹوں کی نگرانی کی، وہ اب اسلام آباد میں ایران کے اعلی سفارتی نمائندے کے طور پر تعینات ہیں۔ایف بی آئی کے مطابق رضا امیری مقدم پر شبہ ہے کہ انہوں نے براہ راست اس کارروائی کی نگرانی کی تھی جس کے نتیجے میں لیونسن کا اغوا ہوا اور بعد میں انہوں نے اس واقعے پر پردہ ڈالنے میں بھی کردار ادا کیا، ایف بی آئی کے سابق اسپیشل ایجنٹ باب لیونسن 8 مارچ 2007 کو کِش جزیرے پہنچے اور اگلے ہی دن لاپتا ہو گئے۔ایف بی آئی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پوسٹرز اس جاری تفتیش کا حصہ ہیں جس میں ان ایرانی حکام کی شناخت کی جا رہی ہے
جنہوں نے مبینہ طور پر باب کے اغوا اور ایران کی اس میں شمولیت کو چھپانے کی کوشش کی۔دیگر دو افسران میں تقی دانشور اور غلام حسین محمدنیا شامل ہیں، تقی دانشور کو سید تقی قائمی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ ایم او آئی ایس کے سینئر کانٹر انٹیلی جنس افسر ہیں جنہوں نے اس وقت مبینہ طور پر محمد بصیری(المعروف ثنائی) کی نگرانی کی جب لیونسن لاپتا ہوئے۔غلام حسین محمد نیا ایم او آئی ایس کے ایک سینئر نائب ہیں، جنہوں نے 2016 میں البانیا میں ایران کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں، انہیں دسمبر 2018 میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں البانیا سے نکال دیا گیا تھا۔ایف بی آئی کے مطابق انہوں نے اس کوشش کی قیادت کی کہ باب لیونسن کی گمشدگی کا الزام پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم ایک مسلح گروہ پر ڈال دیا جائے۔ایف بی آئی کے واشنگٹن فیلڈ آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسٹیون جینسن نے کہا کہ یہ تین انٹیلی جنس افسران ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے باب کے 2007 میں اغوا اور ایرانی حکومت کی جانب سے بعد ازاں کیے گئے پردہ پوشی کے اقدامات میں مبینہ کردار ادا کیا، باب غالبا اپنی زندگی کے آخری ایام قید میں اپنے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں سے دور گزارنے پر مجبور ہوئے۔باب لیونسن کی قید میں تصاویر اور ایک ویڈیو 2010 اور 2011 میں منظرعام پر آئیں، مگر اس کے بعد سے ان کی کوئی تصدیق شدہ اطلاع نہیں ملی، مارچ 2025 میں امریکی محکمہ خزانہ نے امیری مقدم اور کئی دیگر افراد پر اس کیس کے حوالے سے پابندیاں عائد کیں۔ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ ان کی تفتیش اب بھی جاری ہے اور وہ اغوا میں ملوث دیگر ایرانی اہلکاروں کی شناخت کی کوشش کر رہی ہے ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی