i بین اقوامی

اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات کیلئے وفد قطر بھیجنے کا اعلان، حماس کی شرائط پر اعتراضتازترین

July 07, 2025

اسرائیلی وزیراعظم آفس کا کہنا ہے حماس کی طرف سے قطری تجویز میں تبدیلی کی درخواست اسرائیل کو قبول نہیں۔ غزہ کے معاملے پر بات چیت کے لیے مذاکراتی ٹیم قطر روانہ ہوگی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے مذاکراتی ٹیم دوحہ جانے اور قریبی بات چیت کی دعوت قبول کرنے کی ہدایت دی ہے۔ تاہم بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ حماس کی جانب سے قطر کی تجویز میں جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں وہ اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان ترامیم کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔یہ پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی ہے جب حماس نے اعلان کیا کہ اس نے امریکہ کی ثالثی سے تیار کی گئی جنگ بندی کی تجویز پر ایک مثبت جواب دے دیا ہے۔ اس تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے جس سے اسرائیلی حملے رکنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔الجزیرہ کے مطابق، حماس نے جنگ بندی تجویز میں تین اہم ترامیم مانگی ہیں۔جن میں کہا گیا ہے کہ اگر 60 روزہ جنگ بندی مکمل ہو جائے تو جنگ کے مکمل خاتمے کے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔انسانی امداد اقوام متحدہ کی زیر قیادت بین الاقوامی نظام کے تحت دی جائے، نہ کہ امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹر ین فائونڈیشن کے ذریعے۔

اسرائیلی افواج کو غزہ میں کہاں تعینات کیا جا سکتا ہے، اس پر بھی شرائط دی گئی ہیں۔خیال رہے کہ جی ایچ ایف کے تحت امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اب تک 700 سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔دوسری جانب نیتن یاہو کے اس اعلان کے ساتھ ہی تل ابیب، یروشلم اور حیفا میں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ اور حامیوں نے مظاہرے کیے اور حکومت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل کے مطابق، 7 اکتوبر کے حماس حملوں میں 200 افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں سے تقریبا 50 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 27 کے مردہ ہونے کا خدشہ ہے۔یرغمالیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ سیاسی مفادات کی خاطر معاہدہ کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کے بقول نیتن یاہو کی موجودہ دائیں بازو اتحادی جماعتیں کسی معاہدے کے خلاف ہیں۔ادھر اسرائیل کے انتہا پسند وزیر قومی سلامتی ایتامار بن گویر نے کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو سرنڈر کا راستہ قرار دیتے ہوئے مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اگر جنگ بندی میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کی واپسی، یا انسانی امداد شامل ہو تو یہ دہشتگردی کا انعام ہو گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ غزہ کی مکمل فتح، انسانی امداد کی بندش اور ہجرت کی حوصلہ افزائی ہی واحد حل ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی