i بین اقوامی

بھارت میں'' آئی لو محمد ۖ ''پر احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا ،بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپیںتازترین

September 23, 2025

بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں شروع ہونے والا'' آئی لو محمد ۖ '' سے متعلق احتجاج اب کئی ریاستوں میں پھیل چکا ہے، جس نے مسلم کمیونٹی میں مظاہروں اور جلوسوں کی صورت اختیار کرلی ۔بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق اتر پردیش، اتراکھنڈ، تلنگانہ، اور مہاراشٹرا کے شہروں جیسے اناو، بریلی، کوشامبی، لکھن، مہاراج گنج، کشی پور اور حیدرآباد میں اس تنازع کے باعث ریلیاں اور گلی کوچوں میں احتجاج ہوئے، جن میں بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔یہ تنازع 4 ستمبر کو عید میلاد النبی ۖکے جلوس کے دوران کانپور میں شروع ہوا، جب ایک گروپ نے جلوس کے راستے پر I Love Muhammad کا بینر لگایا تھا، جس پر مقامی ہندو گروپوں نے اعتراض کیا کہ یہ ایک نئی رسم ہے جو اس روایتی مقام پر متعارف کروائی جا رہی ہے۔نو ستمبر کو کانپور پولیس نے عید میلاد النبی جلوس کے دوران نئی رسم متعارف کروانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب کرنے کے الزام میں 24 افراد( 9 نامزد، 15 نامعلوم) کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

مقدمہ میں روایتی خیمہ ہٹانے اور بینر لگانے کا ذکر شامل تھا۔ڈی سی پی دنیش تریپاٹھی کے مطابق حکومت کے قوانین مذہبی جلوسوں میں نئی رسمیں شامل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کچھ افراد نے روایتی خیمہ ہٹا کر نیا خیمہ اور بینر لگا دیا تھا، جسے پولیس نے روایتی مقام پر واپس کیا۔ دنیش تریپاٹھی کا کہنا تھا کہ بینر کے لیے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔تاہم، دونوں ہندو اور مسلم گروپوں نے ایک دوسرے پر پوسٹر پھاڑنے کے الزامات لگائے، اور پولیس کی کوششوں کے باوجود حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔بعدازاں 15 ستمبر کو آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ I Love Muhammad کہنا جرم نہیں ہے۔ انہوں نے پولیس کارروائی پر تنقید کی تھی اور کانپور پولیس کو ٹیگ کیا تھا جس سے تنازع مزید بڑھ گیا۔کانپور پولیس کا موقف ہے کہ بینر کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، مقدمات صرف اس کے نئے مقام پر لگانے اور دوسرے گروپ کے پوسٹرز کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔

پولیس نے عوام سے غلط معلومات نہ پھیلانے کی اپیل کی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ احتجاج اتر پردیش کے مختلف شہروں جیسے اناو، مہاراج گنج، مہاراج گنج، لکھن، ناگپور، اتراکھنڈ اور دیگر مقامات پر ہوا جہاں متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔بھارت سماج وادی پارٹی کے ترجمان کے مطابق پولیس کی ناکامی کی وجہ سے احتجاج میں اضافہ ہوا، انہوں نے کہا کہ ہم آزادیِ اظہار کے حق کا دفاع کرتے ہیں چاہے نعرہ I Love Ram ہو یا I Love Muhammad۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ قانون شکنی یا پولیس پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔مذہبی رہنما، جیسے مولانا صوفیان نظامی، جماعت رضا مصطفی، اور ورلڈ صوفی فورم نے تشدد کی مذمت کی، امن اور آئینی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیا۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے معاملے کو مذہبی آزادی کا مسئلہ قرار دیا اور کہا، آئی لو محمد ۖ کہنا جرم نہیں۔ اگر جرم ہے تو سزا قبول ہے، لیکن مسلمانوں کو نبی کی محبت کا اظہار کرنے پر سزا نہیں ملنی چاہیے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی