ایک تازہ اور انقلابی سائنسی تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اور دماغی سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق، صرف چار ماہ کے نوزائیدہ بچے بھی یادداشت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگرچہ وہ بعد کی زندگی میں ان یادوں کو شعوری طور پر یاد نہیں رکھ پاتے۔ییل یونیورسٹی کے معروف نیوروسائنسدان ڈاکٹر نک ٹرک۔بران اور ان کی ٹیم نے 4 سے 24 ماہ کی عمر کے 26 بچوں پر دماغی اسکین (fMRI) کے ذریعے یہ تحقیق کی۔ اس دوران بچوں کو چہرے، اشیا اور مناظر کی تصویریں دکھائی گئیں اور بعد میں ان تصاویر کے ساتھ نئی تصاویر رکھ کر ان کے یاد رکھنے کے رویے کو جانچا گیا۔تحقیق کنندگان نے بچوں کو پہلے ایک وقت میں ایک تصویر دکھائی، اور پھر کچھ دیر بعد انہیں وہی تصویر اور ایک نئی تصویر ساتھ ساتھ دکھائی۔ اگر بچہ پہلے والی یعنی جانی پہچانی تصویر پر زیادہ دیر تک نظریں جمائے رکھتا، تو اسے یاد رکھی گئی تصویر تصور کیا گیا۔یہ عمل دماغی اسکین کے ساتھ انجام دیا گیا تاکہ یادداشت بنتے وقت دماغ کے کون سے حصے فعال ہوتے ہیں، یہ جانا جا سکے۔تحقیق میں پتہ چلا کہ بچوں کے دماغ کا ہپوکیمپس جو جذبات اور یادداشت سے جڑا ہے، بچپن میں ہی فعال ہوتا ہے۔12 سے 24 ماہ کے بچوں میں آربیٹو فرنٹل کورٹیکس کی سرگرمی دیکھی گئی
جو پہچاننے اور فیصلہ سازی جیسے یادداشت سے جڑے کاموں میں مددگار ہوتا ہے۔یہ تحقیق اس نظریے کی تصدیق کرتی ہے کہ بچہ بچپن میں یادداشت تو بناتا ہے، مگر بعد کی زندگی میں وہ شعوری طور پر اس تک رسائی نہیں رکھتا۔ یہ کیفیت انفینٹائل امنیزیہ بچوں میں بھولنے کی بیماری کہلاتی، جس میں چار سے پانچ سال کی عمر سے پہلے کی یادداشت مٹ جاتی ہے۔اس تحقیق سے زبان سیکھنے کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملی ہے، اس کے علاوہ ترقیاتی مسائل جیسے آٹزم یا سیکھنے میں مشکلات کے حوالے سے نئی تحقیق کے راستے میں مددگار رہی، اور ابتدائی تعلیم کی اہمیت پر نئی روشنی حاصل ہوسکی۔ اس کے علاوہ یادداشت کی بیماریوں جیسے الزائمر کے حوالے سے بھی نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔تاہم، یہ اب بھی معلوم نہیں کہ یہ ابتدائی یادداشتیں کتنے عرصے تک قائم رہتی ہیں، اور کیا ان کی پیچیدگی وقت کے ساتھ بڑھتی ہے۔ مزید تحقیق اس عمل کے بیک گرانڈ میکنزمز کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔یہ انکشاف نہ صرف دماغ کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ننھے بچوں کے ذہن بالغوں کی نسبت کہیں زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں، بس فرق صرف یاد رکھنے کی رسائی میں ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی