برطانیہ میں غیر قانونی طور پر رہائش پزیر تارکین وطن کو وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کھلے الفاظ میں وارننگ جاری کردی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو سخت پیغام جاری کیا ہے۔اپنے پیغام میں کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ایسے افراد کو فوری طور پر حراست میں لیا جائے گا اور ملک سے نکال دیا جائے گا۔ یہ بیان برطانیہ کی امیگریشن پالیسی میں اصلاحات کے تحت ڈی پورٹ نا، اپیل لیٹر اسکیم کو 23 ممالک تک وسعت دینے کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔ اس فہرست میں بھارت بھی شامل ہے۔کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ اگر آپ اس ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو حراست کا سامنا کرنا پڑے گا اور آپ کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ اگر آپ اس ملک میں آ کر جرم کرتے ہیں، تو ہم آپ کوفوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے گا۔برطانوی وزیراعظم کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیبر حکومت کے تحت بارڈر سیکیورٹی اور امیگریشن قوانین کے نفاذ میں سختی برقرار رکھی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق اس بیان سے قبل ایک اور وارننگ جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بہت عرصے سے غیر ملکی مجرم ہمارے امیگریشن نظام کا غلط استعمال کرتے آ رہے ہیں
اور اپنی اپیلوں کے فیصلوں تک مہینوں یا سالوں تک برطانیہ میں مقیم رہتے ہیں۔برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اگر غیر ملکی افراد قانون توڑیں گے تو انہیں پہلی فرصت میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ قبل ازیں جاری ایک بیان میں برطانوی ہوم آفس نے اس اسکیم میں بڑی توسیع کا اعلان کیا، جس کے تحت اس میں شامل ممالک کی تعداد 8 سے بڑھا کر 23 کر دی گئی۔توسیع شدہ پالیسی کے تحت فہرست میں شامل ممالک کے شہریوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا، اور ان کی اپیلیں ملک چھوڑنے کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے سنی جائیں گی۔ برطانوی حکومت کے مطابق، اس اقدام کا مقصد غیر ملکی مجرموں کی ملک بدری کے عمل کو تیز کرنا، حراستی مراکز اور جیلوں پر دبا کم کرنا، اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کی بچت کرنا ہے۔یہ اسکیم دراصل 2023 میں سابق ہوم سیکریٹری سویلا بریورمین کے دور میں بحال کی گئی تھی، اور اس وقت البانیا، نائیجیریا، ایسٹونیا، اور کوسووو جیسے ممالک اس میں شامل تھے۔اب اس فہرست میں بھارت کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، کینیڈا، ملائیشیا، کینیا، اور یوگنڈا جیسے ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔حکام کے مطابق دیگر ممالک کے ساتھ بھی اس پروگرام میں شمولیت کے لیے بات چیت جاری ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی