سینیٹ میں ڈیموکریٹ کی ایک تہائی سے زیادہ تعداد پر مشتمل سینیٹرز نے صدر جوبائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اسرائیل پر زیادہ دبائو ڈالیں تاکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر اس سلسلے میں ایک حتمی اور نتیجہ خیز دبائو ڈالا جا سکے۔ڈیموکریٹ سینیٹرز کا اس مطالبے پر مبنی خط سینیٹ میں اکثریت کے حامل اور یہودیوں کے سخت حامی سینیٹر چک شومر کی تقریر کے بعد سامنے آیا ہے۔ جس میں انھوں نے دو ریاستی حل اور اسرائیل میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ چک شومر نے اپنی تقریر میں نیتن یاہو کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جس کی بعد میں صدر جوبائیڈن نے بھی تائید کر دی۔ واضح رہے نیتن یاہو نے بھی اس سلسلے میں اپنے ایک وفد کو ریپبلیکن سینیٹرز کے ساتھ ملاقات کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاکہ وہ چک شومر کی تقریر کے اثرات کو زائل کر سکیں اور اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کے بارے میں اعتماد میں لے سکیں، 19ڈیموکریٹ سینیٹرز نے پہلی مرتبہ صدر جوبائیڈن کو خط لکھ کر متوجہ کیا ہے کہ مشرق وسطی کا بحران انتہائی درجے پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ امریکی قیادت اسرائیل کو مذاکرات کے لیے ماضی کی سہولت کاری سے بڑھ کر سہولت دے۔ یہ خط ٹام کارپر کی طرف سے لکھا گیا ہے۔سینیٹرز نے لکھا ہے 'ہم صدر جوبائیڈن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوامی سطح پر مضبوط فریم ورک طے کریں اور اس خاکے کے مطابق ضروری اقدامات کیے جائیں
تاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست مغربی کنارے اور غزہ کی بنیاد پر قائم ہو سکے۔ ایک ایسی آزاد ریاست جو غیرفوجی ہو جیسا کہ ماضی میں صدر بل کلنٹن نے امن مذاکرات کو آگے بڑھاتے ہوئے اصطلاح استعمال کی تھی۔ تاہم اسے دونوں فریق تسلیم کرتے ہوں۔ جو 7اکتوبر سے خونی جنگ میں ہیں۔سینیٹرز نے علاقائی سطح پر قیام امن کے لیے ایک انیشی ایٹیو پر بھی زور دیا جو اسرائیل کو جوڑے رکھے۔ بائیڈن اور بل کلنٹن عام طور دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں لیکن جنگ سے پہلے اس سلسلے میں بہت تھوڑی بات ہوئی ہے۔امریکی سینیٹرز نے اپنے خط میں لکھا ہے 'وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے عملی طور پر مایوس ہو چکے ہیں کہ یاہو فلسطینی ریاست کے راستے پر چلنے کے لیے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔' نیز انہوں نے جوبائیڈن سے کہا 'آپ اور آپ کی ایڈمنسٹریشن کی طرف سے سفارتی سطح پر انتہائی اقدامات کیے گئے ہیں۔ جن کی اہمیت ہے۔ لیکن ہم آپ سے اس سلسلے میں مزید کچھ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔جن دوسرے سینیٹرز نے اس خط پر دستخط کیے ہیں ان میں ڈک ڈربن، کرچ کونز وغیرہ شامل ہیں۔ خط میں چک شومر کا نام شامل نہیں ہے۔ وہ اپنی تقریر میں پہلے ہی اس سلسلے میں مضبوط آواز اٹھاتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دے چکے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی