حماس کے ایک سینئر رہنما نے کہا ہے کہ تنظیم غالبا ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو مسترد کر دے گی کیونکہ یہ اسرائیل کے مفادات کی خدمت کرتا ہے اور فلسطینی عوام کے مفادات کو نظرانداز کرتا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے(بی بی سی) کے مطابق حماس کے رہنما نے بتایا ہے کہ حماس کیلئے ٹرمپ کے منصوبے کی ایک اہم شرط یعنی غیر مسلح ہونا اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ قبول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔رپورٹ کے مطابق حماس غزہ میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی کی بھی مخالفت کر رہی ہے، جسے وہ ایک نئی قسم کا قبضہ تصور کرتی ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کو وائٹ ہائو س میں ہونے والی بات چیت کے دوران ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کر لیا تھا، تاہم حماس نے تاحال کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا۔قطر کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حماس وائٹ ہائوس کی تجویز کا ذمہ داری کے ساتھ جائزہ لے رہا ہے۔بی بی سی کو ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ مشاورت میں حماس کی غزہ کے اندر اور باہر موجود دونوں طرح کی قیادت شامل ہے۔غزہ میں گروپ کے فوجی کمانڈر عزالدین الحداد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مذاکراتی منصوبے کو قبول کرنے کے بجائے لڑائی جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔دوسری جانب غزہ سے باہر موجود حماس رہنما حالیہ مذاکرات میں پس منظر میں چلے گئے ہیں کیونکہ ان کے پاس یرغمالیوں پر براہِ راست کنٹرول موجود نہیں ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی