عالمی شہرت یافتہ آئیس کریم برانڈ بین اینڈ جیری کے شریک بانی اور دیرینہ ترقی پسند سماجی کارکن بین کوہن کو امریکی سینیٹ کی ایک سماعت کے دوران احتجاج پر گرفتار کر لیا گیا۔ 74 سالہ بین کوہن نے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ غزہ میں قتل عام پر لاکھوں امریکیوں کے جذبات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔بین کوہن نے امریکی وزیر صحت رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی سینیٹ میں اپنے محکمے کے بجٹ پر گواہی کے دعوران ہنگامہ کھڑا کردیا۔ کوہن اور دیگر مظاہرین نے نعرے لگائے کہ کانگریس بچوں کو مارنے کے لیے بموں کی فنڈنگ کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ میں کم آمدنی والے افراد کے لیے میڈیکیڈ جیسا طبی پروگرام ختم کیا جا رہا ہے۔ احتجاج کے دوران بین کوہن کو امریکی کیپیٹل پولیس نے ہتھکڑیاں لگا کر حراست میں لے لیا۔ انہیں لے جاتے ہوئے وہ چیخ کر سینیٹرز سے مطالبہ کرتے رہے کہ اسرائیل پر دبا ڈالیں تاکہ بھوک سے بلکتے بچوں تک خوراک پہنچائی جا سکے۔رہائی کے بعد غیرملکی خبررساںادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بین کوہن نے کہا کہ یہ وہ مقام تھا جہاں ہمیں کچھ کرنا ہی پڑا۔ یہ ایک اسکینڈل ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو 20 ارب ڈالر کے بموں کی منظوری دی ہے جبکہ ہمارے اپنے ملک میں سماجی پروگرام کمزور کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، اکثریتی امریکی عوام اس صورتحال سے نفرت کرتے ہیں جو کچھ ہمارا ملک ہمارے پیسے اور ہمارے نام پر کر رہا ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔ بین کوہن نے مسئلے کو صرف مالی نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ دسیوں ہزار افراد کے قتل عام میں شرکت اور خاموش حمایت انسانیت کے بنیادی اصولوں اور امریکہ کی اخلاقی شناخت کو مجروح کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اپنے اختیاری بجٹ کا تقریبا نصف جنگی اخراجات پر صرف کرتا ہے۔ اگر ہم اس کا صرف آدھا حصہ دنیا بھر میں زندگی بہتر بنانے پر خرچ کریں، تو عالمی کشیدگیاں خود بخود کم ہو جائیں گی۔ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا، جب ایک تین سالہ بچہ دوسروں کو مارنے لگے تو آپ اسے سمجھاتے ہیں کہ الفاظ استعمال کرو، مارو مت۔ ملکوں کے درمیان اختلافات ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں حل کیا جا سکتا ہے بغیر کسی کو مارے۔ بین کوہن اسرائیلی پالیسی کے پرانے ناقد ہیں۔ گزشتہ سال وہ دیگر ممتاز یہودی شخصیات کے ساتھ ایک کھلے خط پر دستخط کر چکے ہیں جس میں پرو اسرائیل لابی AIPAC کی مخالفت کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، مجھے علم ہے کہ میری آواز زیادہ سنی جاتی ہے، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں ان لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کر رہا ہوں جو میرے جیسے خیالات رکھتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی