فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی کے بدلے 10 قیدیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ اب بھی معاہدے تک پہنچنے کیلئے کئی نکات پر اختلاف موجود ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ جاری امن کوششوں کے تحت 10 قیدیوں کو رہا کرے گی، تاہم تنظیم واضح کیا ہے کہ معاہدے میں اب بھی کئی اہم نکات پر اختلاف موجود ہے، جن میں امداد کی آزادانہ رسائی، غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور مستقل جنگ بندی کے لیے حقیقی ضمانتیں شامل ہیں۔یہ اعلان قطر کی ثالثی میں 4 دن کے بالواسطہ مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔تنظیم نے کہاکہ اگرچہ اب تک ان معاملات پر مذاکرات اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشکل رہے ہیں، ہم ثالثوں کے ساتھ سنجیدگی اور مثبت جذبے کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ رکاوٹوں پر قابو پایا جا سکے، اپنے عوام کی مشکلات کا خاتمہ ہو، اور ان کی آزادی، تحفظ اور باوقار زندگی کی خواہشات پوری کی جا سکیں۔حماس نے عہد کیا ہے کہ غزہ ہتھیار نہیں ڈالے گا، جنگ بندی مذاکرات سے وابستہ ایک فلسطینی عہدیدار نے اشارہ دیا کہ اسرائیل اب بھی امداد کے آزادانہ داخلے کی اجازت نہ دے کر معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی کے حوالے سے دوحہ میں جاری مذاکرات میں بڑی لچک دکھا رہی ہے، حماس کے رہنما طاہر النونو نے تصدیق کی کہ موجودہ مذاکرات کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، انہوں نے طے پانے والے کسی بھی معاہدے کے نفاذ کے لیے واضح بین الاقوامی ضمانتوں کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے پاس دبا کے حقیقی لیور موجود ہیں جو زمین پر فرق پیدا کر سکتے ہیں، حماس کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس میں مکمل انخلا اور دشمنی کا خاتمہ شامل ہے۔ دوحہ میں مذاکرات سے باخبر ایک فلسطینی ذریعے نے بتایا کہ اسرائیلی وفد مذاکرات کرنے کے بجائے زیادہ تر سننے کی حالت میں تھا، جو اسرائیل کی مستقل رکاوٹ ڈالنے اور کسی بھی ممکنہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی طرح جنگ بندی کے بارے میں امید ظاہر کی، نیتن یاہو نے فاکس بزنس نیٹ ورک کو بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں، مثبت امکان ہے کہ ہمیں یہ معاہدہ مل جائے۔ ادھر اسرائیلی چیف آف سٹاف نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ایال زامیر نے اسرائیلی ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ ہم نے کئی اہم نتائج حاصل کیے ہیں، ہم نے حماس کی حکمرانی اور فوجی صلاحیتوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے، ہم نے جس آپریشنل طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بدولت یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حالات اب سازگار ہیں۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے کہا کہ ہم غزہ میں جنگ بندی کے لیے سنجیدہ ہیں اور یہ قابل حصول ہے، انہوں نے سلوواکیہ کے دارالحکومت براٹیسلاوا کے اپنے دورے کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو ہم غزہ میں مستقل جنگ بندی پر بات چیت کریں گے۔امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس دوحہ میں قریبی بات چیت کے دوران چار میں سے تین بقایا مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے، ہمیں امید ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔اہم باقی ماندہ اختلاف غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا سے متعلق ہے، حماس مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیلی فوج مارچ میں سابق جنگ بندی کے خاتمے سے قبل کی اپنی پوزیشنوں پر واپس چلی جائے تاہم اسرائیل اس سے انکار کر رہا ہے۔اس دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اقوام متحدہ یا وہ بین الاقوامی تنظیمیں جو اسرائیل یا حماس سے وابستہ نہیں ہیں، ان علاقوں تک امداد پہنچائیں گی جہاں سے اسرائیلی فوج انخلا کرے گی، اس تجویز کی بنا پر اسرائیل اور امریکا کی حمایت سے کام کرنے والی غزہ ہیومینٹیرین فانڈیشن اپنے آپریشنز کو وسعت نہیں دے سکے گی اور اسے واپس جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔حماس اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل انخلا کرے گا اور مذاکرات کے دوران لڑائی دوبارہ شروع نہیں ہوگی اور اقوام متحدہ پرانے نظام کے مطابق امداد تقسیم کرے گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی