کریملن نے روس اور یوکرین کے مابین سات ہفتوں بعد استنبو ل میں ہونے والی بات چیت کے بعد کسی بڑی پیش رفت کی توقعات کو کم کر دیا، جبکہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے اسے پیوٹن سے ممکنہ ملاقات کی تیاری کا موقع قرار دیا ۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، کریملن نے استنبول میں یوکرین کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعدکریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ یقینا کوئی بھی آسان راستے کی توقع نہیں رکھتا، یہ یقینا ایک بہت مشکل گفتگو ہوگی، کیونکہ دونوں فریقین کے منصوبے مکمل طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔یوکرین کے ایک سفارتی ذریعے نے بتایا کہ کیف کے نزدیک پیوٹن اور زیلنسکی کی ملاقات ہی کسی بڑی پیش رفت کی بنیادی شرط ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ یوکرینی وفد ترکیہ میں امن اور مکمل جنگ بندی کی طرف اہم اقدامات کرنے کے لیے تیار ہو کر آیا ہے، لیکن سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ روسی فریق تعمیری رویہ اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ اس دوران یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا مقصد ان کی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی براہ راست ملاقات کی تیاری ہونا چاہیے۔
یہ سات ہفتوں سے زائد عرصے میں پہلی امن بات چیت ہے، جو اس وقت ہو رہی ہے جب ماسکو پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ دبا ہے کہ وہ کوئی معاہدہ کرے، ورنہ سخت نئی پابندیوں کا سامنا کرے۔اس سے قبل 16 مئی اور 2 جون کو ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں ہزاروں جنگی قیدیوں اور فوجیوں کی لاشوں کا تبادلہ ہوا تھا، تاہم یہ ملاقاتیں مجموعی طور پر تین گھنٹے سے بھی کم جاری رہیں اور جنگ کے خاتمے کی جانب کوئی واضح پیش رفت نہ ہو سکی۔ا دھر روس نے کہا کہ اس کی افواج نے یوکرین کے صوبہ سومی میں واقع واراشینے نامی بستی پر قبضہ کر لیا ہے۔پیوٹن نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک بفر زون قائم کریں، کیونکہ گزشتہ سال یوکرین نے اچانک روس میں داخل ہو کر کئی ماہ تک اس کے علاقے پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔صدر زیلنسکی نے اس ہفتے کے آغاز میں کہا تھا کہ بات چیت کا ایجنڈا واضح ہے، جس میں جنگی قیدیوں اور روس کی جانب سے اغوا کیے گئے بچوں کی واپسی اور ان کی اور پیوٹن کی ملاقات کی تیاری شامل ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی