i بین اقوامی

جنگی جرائم کی عالمی عدالت سے بوسنیا کے قصائی کی قبل از وقت رہائی کی درخواست مستردتازترین

July 30, 2025

اقوام متحدہ کی جنگی جرائم کی عدالت نے بوسنیا کے قصائی راتکو ملادچ کی قبل از وقت رہائی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق راتکو ملادچ جو 1992 سے 1995 کے یوگوسلاویہ کے تنازع کے دوران بدنام زمانہ بوسنیائی سرب فوجی رہنما تھے، اور سربرینیتسا قتلِ عام کے نگران بھی تھے، انہوں نے صحت کی بنیاد پر سربیا منتقلی کی درخواست کی تھی۔بین الاقوامی باقی ماندہ فوجداری ٹربیونلز کے میکنزم کی جج گریسیئیلا گیٹی سانتانا )جو یوگوسلاویہ کی جنگی جرائم کی عدالت کے زیر التوا مقدمات کو دیکھ رہی ہیں( نے کہا کہ ملادچ کی صحت کی حالت شدید لاعلاج بیماری کے معیار پر پوری نہیں اترتی جو قبل از وقت رہائی کے لیے ضروری ہے۔ملادچ، جنہیں بوسنیا کا قصائی کہا جاتا ہے، کو 2017 میں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، انہوں نے 3 جون 2025 کو رہائی کی درخواست دی تھی، یہ مقف اختیار کرتے ہوئے کہ ان کے پاس صرف چند ماہ کی زندگی باقی ہے۔سانتانا نے دی ہیگ میں جاری کیے گئے 12 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ میں تسلیم کرتی ہوں کہ ملادچ کی موجودہ حالت، جس میں انہیں روزمرہ کی سرگرمیوں کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، نازک ہے، تاہم، انہیں مسلسل مکمل اور ہمدردانہ طبی نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے، اور یہ طبی رپورٹس سے واضح ہوتا ہے۔جج کی جانب سے فیصلے کہا گیا ہے کہ میرے سامنے موجود معلومات سے واضح ہے کہ جن ہنگامی انسانی بنیادوں پر ملادچ نے رہائی کی درخواست کی ہے، وہ ثابت نہیں ہو سکیں۔83

سالہ ملادچ کو سابق یوگوسلاویہ کے لیے اقوام متحدہ کی عدالت نے بوسنیا کے دارالحکومت سراجیو کے 43 ماہ طویل محاصرے کے دوران شہری آبادی کو خوفزدہ کرنے اور 1995 کے سربرینیتسا قتل عام میں کردار ادا کرنے پر سزا سنائی تھی۔جولائی 1995 میں، بوسنیائی سرب افواج نے سربرینیتسا میں تقریبا 8 ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا۔سربرینیتسا کا قتلِ عام بوسنیائی جنگ کا خونی نقطہ عروج تھا، جو یوگوسلاویہ کے خاتمے کے دوران اس وقت شروع ہوئی جب بوسنیائی سرب، ملک کے دو دیگر بڑے نسلی گروہوں کروٹس اور مسلم بوسنیاک کے خلاف نسلی تطہیر کے ذریعے سرب اکثریتی علاقے قائم کرنا چاہتے تھے۔ روس-یوکرین جنگ سے پہلے، بوسنیا کی یہ جنگ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے خونی تنازع سمجھی جاتی تھی۔ملادچ کے وکلا انہیں طویل عرصے سے بیمار اور کمزور ظاہر کرتے آ رہے ہیں۔ اپنی تازہ ترین درخواست میں، انہوں نے مقف اختیار کیا کہ ملادچ ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہیں اور ان کی باقی زندگی صرف چند مہینوں پر مشتمل ہے۔ ان کے دفاع نے پہلی بار 2017 میں طبی بنیادوں پر عارضی رہائی کی درخواست دی تھی۔سانتانا نے کہا کہ ملادچ کی جاری قید کو نہ تو غیر انسانی اور نہ ہی ذلت آمیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ملادچ کو 2011 میں 16 سال روپوش رہنے کے بعد سربیا سے گرفتار کیا گیا تھا، اور وہ دی ہیگ میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان کے بیٹے، ڈارکو، سربیائی میڈیا سے اپنے والد کی خراب صحت کے بارے میں اکثر بات کرتے ہیں۔ ملادچ آج بھی سربیا کے قوم پرست حلقوں میں ہیرو تصور کیے جاتے ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی