i بین اقوامی

کمپنیوں کا ٹرمپ کے ٹیرف کا بوجھ صارفین سے وصول کرنے کا فیصلہتازترین

July 30, 2025

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درآمدی اشیا پر عائد کردہ نئے ٹیرف اب براہ راست امریکی صارفین کے روزمرہ بجٹ پر وار کرنے لگے ہیں۔ جو فیصلے کبھی صرف سیاسی بیانات یا معاشی رپورٹوں تک محدود تھے، اب وہ گھروں کے باورچی خانوں، واشنگ مشینوں اور جیبوں میں محسوس ہونے لگے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے نافذ کردہ ٹیرف کے بعد معروف کمپنیاں اب اعلان کر رہی ہیں کہ وہ اضافی اخراجات خود برداشت نہیں کریں گی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درآمدی اشیا پر لگائے گئے نئے ٹیرف (ٹیکس) کا اثر اب امریکی صارفین کی جیبوں تک پہنچنے لگا ہے۔ بڑی کمپنیوں نے واضح کیا ہے کہ وہ یہ اضافی لاگت خود برداشت نہیں کریں گی، بلکہ اس کا بوجھ خریداروں پر ڈالیں گی۔عام آدمی پر اس فیصلے کے اثرات بالکل سیدھے اور روزمرہ زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ آسان الفاظ میں سمجھیں تو روزمرہ کی چیزیں مہنگی ہو جائیں گی۔گزشتہ مہینوں کے دوران کئی بڑی کمپنیوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت نے درآمد شدہ اشیا (امپورٹڈ آئٹمز) پر ٹیکس لگایا، تو انہیں یا تو اپنا منافع کم کرنا پڑے گا یا پھر چیزوں کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی۔اسی تناظر میں معروف گھریلو استعمال کی اشیا بنانے والی کمپنی پروکٹر اینڈ گیمبل (P&G) نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے سے امریکا میں اپنی کئی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی۔ اس میں بانٹی پیپر ٹاول اور ٹائڈ واشنگ پاڈر جیسی عام گھریلو اشیا شامل ہیں۔کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ تقریبا ایک چوتھائی مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی، اور یہ اضافہ درمیانے درجے (4 سے 6 فیصد) کا ہوگا۔

یعنی وہ چیزیں جو آپ ہر روز خریدتے ہیں جیسے واشنگ پاڈر، کچن کا پیپر ٹاول، کولڈ ڈرنکس، بچوں کا دودھ، اور دوسری پیک شدہ چیزیں، ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ کیونکہ کمپنیاں جو یہ چیزیں بناتی ہیں، وہ حکومت کے نئے ٹیرف کی وجہ سے زیادہ پیسے دے رہی ہیں، اور یہ پیسہ اب وہ آپ سے وصول کریں گی۔دوسری جانب امریکی اسٹاک مارکیٹ میں اگرچہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی بدولت ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن گھریلو اشیا، خوراک اور مشروبات بنانے والی کئی بڑی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔نیسلے نے حال ہی میں کہا کہ شمالی امریکا میں خریدار مہنگی پیک شدہ اشیا خریدنے سے کترا رہے ہیں، اسی لیے فروخت کم ہو رہی ہے۔رائٹرز کے مطابق، تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر قیمتیں مزید بڑھائی گئیں تو سرمایہ کاروں کے خدشات بڑھ جائیں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صارفین پہلے ہی مہنگائی سے پریشان ہیں اور کمپنیوں پر اضافی ٹیرف کا دبا بھی ہے۔ہارورڈ بزنس اسکول کے ماہر بل جارج کا کہنا ہے کہ اب وال مارٹ، ایمیزون اور بیسٹ بائے جیسی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہوں گی، اور اس کا اثر براہِ راست عام صارف پر پڑے گا۔جب بڑے برانڈز کی چیزیں مہنگی ہوں گی، تو عام آدمی سستی اور غیر معروف کمپنیوں کی طرف جائے گا، چاہے ان کی کوالٹی کم ہو۔ اس سے صحت اور معیارِ زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 16 جولائی سے 25 جولائی کے درمیان مختلف کمپنیوں نے خبردار کیا کہ انہیں ٹیرف کی وجہ سے سالانہ 7.1 سے 8.3 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔گاڑی بنانے والی کمپنیاں جیسے جی ایم اور فورڈ پہلے ہی اربوں ڈالر کے ٹیرف برداشت کر چکی ہیں، لیکن اب ان کے لیے بھی مزید قیمتیں نہ بڑھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شروع میں کمپنیوں نے بڑی مقدار میں مال ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ فوری قیمتیں نہ بڑھانا پڑیں، لیکن جیسے جیسے پرانا اسٹاک ختم ہوگا، اگلے چند مہینوں میں قیمتوں میں واضح اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے، خاص طور پر سال کے آخر یا اگلے سال کے آغاز میں۔ادھر کچھ کمپنیاں جیسے رے بین بنانے والی ایسسلر لکسوٹیکا اور گھڑیاں بنانے والی کمپنی سوئس نے پہلے ہی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ سوئس کے سی ای او نک ہائیک کے مطابق انہوں نے اپریل میں قیمتیں 5 فیصد بڑھائیں لیکن فروخت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔انہوں نے کہا کہ مہنگی گھڑی خریدنے والے لوگ اکثر سفر کے دوران بیرونِ ملک سے خریداری کر لیتے ہیں جہاں ٹیکس کم ہوتا ہے، لیکن گاڑیاں اور مشینیں اس طرح نہیں خریدی جا سکتیں۔یوں، صدر ٹرمپ کے تجارتی اقدامات کا اثر اب واضح ہوتا جا رہا ہے اور عام امریکی خریدار کے لیے روزمرہ کی اشیا مہنگی ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔اگر آپ کی آمدنی نہیں بڑھتی لیکن چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں، تو آپ کو اسی تنخواہ میں زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ یعنی گھر کا بجٹ تنگ ہو جائے گا، اور شاید کچھ چیزیں چھوڑنی پڑیں گی۔جب ہر چیز مہنگی ملے گی تو آپ کی بچت متاثر ہوگی۔ جو پیسے آپ ہر مہینے بچاتے تھے، اب وہ ضروری چیزوں پر خرچ ہو جائیں گے۔چونکہ کئی کمپنیاں قیمتیں بڑھا رہی ہیں، تو مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے، جس کا اثر صرف کھانے پینے پر نہیں بلکہ کپڑے، جوتے، گاڑیوں، موبائل، حتی کہ علاج پر بھی پڑ سکتا ہے۔ایک عام امریکی کو آنے والے مہینوں میں اپنی روزمرہ زندگی مہنگی لگے گی۔ بازار سے چیزیں خریدتے وقت جیب پر بوجھ زیادہ محسوس ہوگا، اور گزارہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہ سب صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کا براہِ راست اثر ہے جو کمپنیوں کے ذریعے عام صارف تک پہنچ رہا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی