لاہو ر سے تعلق رکھنے والی بسمہ آصف آسٹریلوی ریاست کی پارلیمنٹ میں پہنچ گئیں۔آسٹریلیا کی ریاست کوئینز لینڈ پارلیمنٹ میں بسمہ آصف کی بیک وقت انگلش، اردو اور پنجابی زبان میں کی گئی برجوش تقریر پر نہ صرف ایوان تالیوں سے گونج اٹھا بلکہ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔میڈیارپورٹس کے مطابق پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونی والی پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری بسمہ آصف سنہ 2024 کے انتخابات میں اپنے علاقے کی سنڈیکٹ سے اپوزیشن لیبر پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں انھوں نے کہا کہ مجھے اپنے پاکستانی اور پنجابی ہونے پر فخر ہے۔ میں یہاں پر اپنی تین آبائی زبانوں پنجابی، ہندی اور اردو میں بات کرنے پر فخر محسوس کر رہی ہوں۔بسمہ آصف 28 سال کی عمر میں آسٹریلوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی ایشیا، انڈیا، بنگلہ دیش میں مشہورہو گئیں۔بسمہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر انھوں نے خود ہی لکھی تھی جو پنجابی، اردو اور ہندی زبان میں تھی۔
انھوں نے کہا یہ تینوں زبانیں میری شناخت ہیں اور مجھے ان پر فخر ہے۔بسمہ کا کہنا تھا کہ میں ایسے معاشرے کے لیے جدوجہد کررہی ہوں جہاں محنت کش کو عزت اور احترام سے اس کا معاوضہ ملنا چاہیے اور ان کی حفاظت بھی یقینی ہو۔بسمہ آصف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بچپن میں انھیں ملالہ یوسفزئی کو دیکھ کو تعلیم حاصل کرنا کا شوق ہوا اور انھیں لگا کہ وہ ملالہ کی طرح لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔بسمہ اور ان کا خاندان بہتر مستقبل کی تلاش میں سنہ 2004 میں لاہور سے آسٹریلیا منتقل ہوا۔ ان کے دیگر عزیز و اقارب لاہور ہی میں رہائش پذیر ہیں اور بسمہ ان سے ملنے کے لیے اکثر پاکستان آتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آسڑیلیا منتقل ہونے کے بعد انھوں نے انگریزی سیکھی لیکن ان کی والدہ نے ہمیشہ انھیں اپنی مادری زبان اور روایات کے ساتھ جوڑے رکھا
۔ یہ خاندان گھر میں ہمیشہ پنجابی میں ہی بات کرتا تھا۔بسمہ کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کے دونوں میں لوگوں کی ملازمیتں ختم ہوئیں اور اسی وجہ سے انھیں اکنامکس، پبلک پالیسی پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔انھوںنے بتایا کہ مختلف سسٹم کا معائنہ کرنے کے بعد انھیں یہ سمجھ میں آیا کہ کیسے پالیسیاں عام عوام پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس دوران انھوں نے مقامی کیمونٹی کے مسائل میں دلچسپی لینا شروع کی۔پبلک پالیسی سے وابستہ شعبے میں ملازمت کے دوران بسمہ نے ایشیائی کیمونٹی کے ساتھ رویوں کو بہتر کرنے کے لیے حکومت کے لیے سفارشات تیار کیں۔بسمہ آصف نے بتایا کہ وہ جنوبی ایشیائی ممالک سے آسٹریلیا آنے والے افراد کو حکومت کی جانب سے فراہم کی جانی والی عوامی بہبود کی سہولیات کے بارے میں آگاہ کرتی تھیں اور ان سب سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا را بطہ کیمونٹیز کے ساتھ اور بھی مضبوط ہو گیا۔ان کا کہنا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں انھیں سیاست میں آنے میں دلچسپی نہیں تھی مگر تعلیمی اداروں کے انتخابات میں وہ جس بھی امیدوار کو سپورٹ کرتی وہ انھیں اپنی مہم کی نگرانی اور اس کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری دے دیتے کیونکہ کہ انھیں لگتا تھا کہ میں ایک اچھی منتظم ہوں۔بسمہ آصف کا کہنا تھا کہ ایک دن ہمارے حلقے کے مقامی ممبر جو کہ ریٹائرڈ ہونے والے تھے نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ بسمہ آپ کیمونٹی میں ملتی جلتی ہیں۔
آپ کے اندر ایک جذبہ موجود ہے تو اپ ایک اچھی چوائس ہوسکتی ہو۔ آپ آسڑیلیا اور کمیونٹی کے لیے مثبت تبدیلی لا سکتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ کیا آپ ٹکٹ لینا چاہو گی تو میں نیسوچا کیوں نہیں اور پھر میں نے انتخابی مہم شروع کر دی۔میرے والدین کو جب پتہ چلا کہ میں الیکشن لڑ رہی ہوں تو انھوں نے کہا کہ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔بسمہ آصف کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے اس سفر میں نسل پرستی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ جس کا مجھے سامنے کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری کمیونٹی میں انڈین، پاکستانی اور پنجابی کیمونٹی تھی اور میرا آگے آنے ان سب کو فائدہ ہونا تھا۔انھوں نے بتایا کہ انھیں نسل پرستی پر مبنی رویوں کا سامنا کرنا پڑا، ان پر آن لائن بصرے ہوئے لیکن میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ میں تبدیلی لانے کے لیے میدان میں آئی ہوں اور مجھے بہتر مستقبل کے لیے آگے بڑھنا ہے۔بسمہ آصف نے بتایا کہ الیکشن سے قبل انتخابی مہم میں بھی انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض افراد انھیں دیکھ دروازے بند کر دیتے جبکہ بعض کے خیال میں اس انتخاب لڑنے کے لیے عمر کم ہے۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے منفی اور برے رویوں کو اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا کیونکہ ان کے بقول اچھے برے اور مختلف نظریات تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر میں سب کو قائل کرنی کی کوشش کرتی تھی۔بسم نے کہا کہ میں 16 سال کی تھی جب میں نے ملالہ یوسفزئی کو ٹی وی پر دیکھا، وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھا رہی تھیں جس سے میں بہت متاثر ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ میں ملالہ یوسفزئی کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ جن سے متاثر ہو کر مجھ میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، مجھے لگا کہ اگر ایک چھوٹی سی بچی اپنے حق کے لیے لڑسکتی ہے تو کیوں نہ میں بھی اپنی آواز اس کی آواز کے ساتھ بلند کروں۔بسمہ چاہتی ہیں کہ تمام نوجوان، بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کے نوجوان، اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں۔ کوئی دوسرا ان کے لئے آواز نہیں اٹھائے گا۔ نہیں لڑو گے تو پھر آپ کا اور آپ کے بچوں کا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی