i بین اقوامی

ملک بدری کے معاملات میں تعاون ،طالبان حکومت نے 2 نمائندے جرمنی بھیج دئیےتازترین

July 22, 2025

جرمن حکومت نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے دو نئے نمائندے جرمنی بھیجے گئے ہیں، جن کا مقصد مجرم قرار دئیے گئے افغان شہریوں کی ملک بدری کے عمل میں تعاون فراہم کرنا ہے، یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حالیہ دنوں میں 81 افغان شہریوں کو جرمنی سے ان کے وطن واپس بھیجا گیا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جمعہ کو جرمنی سے افغانستان روانہ کی جانے والی پرواز گزشتہ سال ملک بدریوں کے دوبارہ آغاز کے بعد دوسری پرواز تھی، اگرچہ جرمنی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا، تاہم ملک بدری کے معاملات پر تکنیکی سطح پر رابطے قائم ہیں، جنہیں قطر کی مدد سے ممکن بنایا گیا ہے۔جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیئس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ طالبان انتظامیہ کے دو نمائندے جرمنی میں افغان سفارتی مشنوں کا حصہ بنیں گے۔جرمن وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے بعد میں تصدیق کی کہ یہ دونوں نمائندے ہفتے کے آخر میں جرمنی پہنچ چکے ہیں اور اس وقت وہ معمول کے رجسٹریشن کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

روزنامہ فرانکفرٹر الگمائنے زائتونگ (ایف سے زیڈ) کے مطابق، یہ دونوں نمائندے برلن میں افغان سفارتخانے اور مغربی شہر بون میں افغان قونصل خانے میں خدمات انجام دیں گے، اخبار نے دعوی کیا کہ طالبان حکام نے گزشتہ جمعے کی پرواز کے بدلے میں یہ مطالبہ کیا تھا، اور یہ نمائندے پہلے بھی قونصلر خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں انتہاپسند نہیں سمجھا جاتا۔یاد رہے کہ طالبان کی 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد جرمنی نے افغانستان کے لیے ملک بدریاں روک دی تھیں اور کابل میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا، تاہم گزشتہ سال اگست میں جرمن حکومت نے 28 افغان باشندوں کو ملک بدر کر کے اس عمل کو دوبارہ شروع کیا تھا۔موجودہ چانسلر فریڈرک مرز نے ملک بدریوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے، انہوں نے رواں سال فروری کے عام انتخابات میں امیگریشن پر سخت مقف کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ بنایا تھا۔ترجمان اسٹیفن کورنیلیئس نے کہا کہ حکومت نے جرائم میں ملوث افراد کی منظم ملک بدری کا عزم کر رکھا ہے اور یہ ایک پرواز سے مکمل نہیں ہوگا، مزید پروازیں متوقع ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کی جانب سے کابل میں خواتین کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ان خواتین پر الزام ہے کہ انہوں نے طالبان کے نافذ کردہ سخت ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی، تاہم حکام نے ایسی گرفتاریوں سے انکار کیا ہے۔طالبان کی 2021 میں واپسی کے بعد سے خواتین پر سخت اسلامی ضوابط نافذ کیے گئے ہیں، جن کے تحت ان پر لازم ہے کہ وہ سر سے پاں تک مکمل طور پر ڈھکی رہیں۔اقوام متحدہ کے افغانستان میں امدادی مشن (یوناما) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم 16 سے 19 جولائی کے دوران کابل میں متعدد خواتین اور لڑکیوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، انہیں مبینہ طور پر حجاب سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔یوناما نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ یہ واقعات خواتین اور لڑکیوں کو مزید تنہائی کی طرف دھکیلتے ہیں، خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔ مشن نے مزید بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر طالبان حکام سے رابطہ کیا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی