اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 2025 کی انسدادِ دہشت گردی رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ دسمبر 2024 کی مہم میں سابق شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجو افغانستان منتقل ہو سکتے ہیں اور وہاں سے علاقائی خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل یو این کی اس رپورٹ نے پاکستان کو بین الاقوامی برادری پر زور دینے پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ایک عالمی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی اختیار کرے۔یہ رپورٹ سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی گئی، جس میں اس خطرے کو اجاگر کیا گیا جو داعش خراسان (آئی ایس آئی ایل-کے ) کی جانب سے لاحق ہے، یہ گروہ افغانستان اور وسیع تر جنوبی و وسطی ایشیائی خطے کے لیے سب سے سنگین چیلنجز میں سے ایک بنا ہوا ہے اور اس کے لگ بھگ 2 ہزار جنگجو موجود ہیں۔سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے افغانستان کو غیر مستحکم قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ داعش خراسان پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریبا 3 ہزار جنگجو شام میں اب بھی سرگرم ہیں، جو دوبارہ اپنی کارروائی کی صلاحیت بحال کرنے اور مقامی سیکیورٹی خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ان میں سے کچھ افغانستان منتقل ہو سکتے ہیں۔رپورٹ میں شمال مشرقی شام کے کیمپوں میں قید دسیوں ہزار افراد پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، جن میں سے بہت سی خواتین اور بچے مبینہ طور پر داعش سے منسلک ہیں، غیر محفوظ حالات میں طویل عرصہ قید رہنے سے انتہا پسندی کا خطرہ بڑھتا ہے، جس کے باعث ان افراد، خصوصا بچوں کی محفوظ، رضاکارانہ اور باعزت واپسی کی اپیل کی گئی ہے۔اقوامِ متحدہ کے عہدیداران نے خبردار کیا کہ داعش نوجوانوں کو بھرتی کرنے، فنڈز جمع کرنے اور پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے ڈیجیٹل ذرائع اور مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال کر رہا ہے، جس سے ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔پاکستانی سفیر نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے جامع نقط نظر اپنانے پر زور دیا، جس میں ریاستی جبر اور قبضے جیسے بنیادی عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی