پاکستان نے عا لمی انسداد دہشتگردی کے ڈھانچے کو متوازن، انسانی حقوق پر مبنی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کا انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ اتنی استعداد رکھتا ہو کہ وہ طویل عرصے سے جاری تنازعات، ناانصافی، جبر، اور بین الاقوامی قانون کی ان خلاف ورزیوں کا موثر طور پر سدباب کر سکے، جنہیں انسداد دہشت گردی کے نام پر چھپایا جاتا ہے۔ ان خیالات کااظہار اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد نے ہیڈکوارٹرز میں یو این 80 اور مستقبل کے انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے سے متعلق سفیروں کی سطح کی مشاورت کے دوران کیا ۔انہوں نے کہا کہ اس ڈھانچے کو دہشت گردی کو فروغ دینے والے اسباب کا بھی خاتمہ کرنا چاہیے۔انہوں نے زور دیا کہ ہمیں دہشت گردی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف جائز جدوجہد اور حق خودارادیت کے درمیان واضح فرق قائم کرنا ہوگا۔ یو این او سی ٹی کو انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے احترام کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنا چاہیے تاکہ رکن ممالک انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔ جب تک ہم ان مسائل کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے، ہماری انسداد دہشت گردی کی کوششیں طول پکڑتی رہیں گی۔سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ موثر انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے لیے اجتماعی کوششیں درکار ہیں جو بین الاقوامی قانون کے فریم ورک میں ہوں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اور غیر امتیازی کارروائی کرے، اور دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور رائے عامہ کو اصل مسائل سے ہٹانے کے حربوں کی مخالفت کرے۔
پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے میں داخلی اصلاحات کی ضرورت پر بھی زو ر دیتے ہوئے کہا کہ پابندیوں کے نظام میں نئی اور ابھرتی ہوئی خطرات کو شامل کرنے کے لیے ضروری ترامیم کی جائیں اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند اور فسطائی تحریکوں کے ابھار سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب دہشت گردی کے واقعات غیر مسلم افراد سے منسلک ہوتے ہیں تو انہیں محض پرتشدد جرائم قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔سفیر عاصم افتخر نے کہا کہ انسداد دہشت گردی آج بھی عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے شرکا کو بتایا کہ پاکستان دہشت گردی کا ایک بڑا شکار رہا ہے، جس نے 80ہزار سے زائد قیمتی جانیں گنوائیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سرحدوں کی پابند نہیں، اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس کے نئے اور خطرناک روپ ابھر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات اس وقت ہی مثر ہوں گے جب وہ رکن ممالک کے باہمی اتفاق سے طے شدہ اصولوں پر مبنی ہوں۔سفیر عاصم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 کے تحت کام کرنے والی انسداد دہشت گردی کمیٹی (CTC) اور دیگر ماہرین کی رپورٹس کے ذریعے غیر متفقہ نارمز، سافٹ لاز اور غیر پابند رہنما اصولوں کے عالمی انسداد دہشت گردی مکالمے میں داخل ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کے تحت ایک بین الحکومتی ذیلی ادارہ قائم کرنے کی تجویز دی جو ان امور پر تمام رکن ممالک کی شمولیت سے غور و فکر کرے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ انٹرپول اور اقوام متحدہ کی متعلقہ ایجنسیوں کے کام کو قومی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مربوط کر کے دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق معلومات اور انٹیلیجنس کے مثر تبادلے کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کو ضم کیا جانا چاہیے یا ان کے مینڈیٹ کو محدود کر دینا چاہیے تاکہ UNOCT کے کام کو مربوط اور موثر بنایا جا سکے۔ اس وقت کئی ادارے ایک جیسا کام کر رہے ہیں، جس سے دہرا پن اور وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے، خاص طور پر صلاحیت سازی کے شعبے میں۔ دریں اثنا عاصم افتخار نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں انسانی امداد پر پابندیاں ختم کی جائیں، محفوظ رسائی دی جائے، غزہ کے شہری ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور اور بار بار نقل مکانی پر مجبور ہیں۔عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ فلسطین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غذائی قلت میں اضافہ ہورہا ہے، فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے اعلی سطح بین الاقوامی امن کانفرنس جلد از جلد بلائی جائے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا مزیدکہنا تھاکہ منصفانہ، پائیدار حل کیلئے سلامتی کونسل کو فوری اور دوٹوک اقدام کرنا ہوگا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی