i پاکستان

دہشتگرد گروہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اقوام متحدہ کا انتباہتازترین

August 01, 2025

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی دہشت گرد گروہوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع بن سکتی ہے، جس سے خطے کی سلامتی مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 22 اپریل کے حملے کے بعد خطے کی صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایک نگرانی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ ان کشیدہ حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ تجزیہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کمیٹی کو رواں ہفتے پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی ٹیم کی چھتیسویں رپورٹ میں شامل ہے، جو جنوری تا جون 2025 کی مدت پر مشتمل ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ، خصوصا پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو استعمال کر کے نہ صرف اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں بلکہ حملوں میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد، مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کئی دنوں تک شدید فائرنگ اور میزائلوں کا تبادلہ ہوا۔حملے کی ابتدائی ذمے داری دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی مگر بعد میں انکار کر دیا، جس کے بعد اس گروہ کے مبینہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) سے روابط پر بحث چھڑ گئی۔

رپورٹ کے مطابق ایک رکن ملک نے کہا کہ یہ حملہ لشکرِ طیبہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا اور ٹی آر ایف کے ساتھ اس کے تعلقات تھے، جب کہ دوسرے ملک نے ٹی آر ایف کو لشکرِ طیبہ کا ہی دوسرا نام قرار دیا۔تاہم ایک اور رکن ملک نے ان خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لشکرِ طیبہ اب غیر فعال ہے، اختلاف رائے رکھنے والے ملکوں کے نام رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان کے عبوری حکام سے بھرپور لاجسٹک اور آپریشنل مدد حاصل ہے اور اس کے داعش خراسان، القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی روابط ہیں۔رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ایک آزاد ماحول میں کام کرنے کی اجازت حاصل ہے جہاں وہ جدید اسلحے تک رسائی رکھتے ہیں، جس سے ان کی کارروائیوں کی تباہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے پاس تقریبا 6 ہزار جنگجو موجود ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں مختلف گروہوں نے نیٹو معیار کے ہتھیار اور دیگر سامان سرحد پار اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹ کے ذریعے حاصل کیے۔رکن ممالک نے رپورٹ کیا کہ ان میں سے بعض گروہوں نے پاکستانی فوجی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے، جن میں سبی (بلوچستان) اور ماچھی (پنجاب) شامل ہیں۔

اگرچہ افغان طالبان کی قیادت میں ٹی ٹی پی سے فاصلہ رکھنے پر داخلی بحث جاری ہے، رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتیں اب بھی مضبوط ہیں۔رپورٹ میں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو ٹی ٹی پی کی جانب سے تربیت دینے اور افغانستان کے جنوب میں مشترکہ کیمپوں کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 میں ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں دہشت گردوں کو تربیت دی اور انہوں نے بی ایل اے کے ساتھ چار کیمپ شیئر کیے، جن میں والیکوٹ اور شورابک شامل ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان گروہوں کو القاعدہ کی طرف سے نظریاتی اور اسلحہ کی تربیت بھی دی گئی، تاہم کچھ رکن ممالک نے اس اتحاد کو محض ایک غیر جارحانہ معاہدہ قرار دیا، نہ کہ مکمل اتحاد۔رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے داعش خراسان سے بھی ٹیکٹیکل سطح پر روابط قائم رکھے ہیں، جو ان کی علاقائی کارروائیوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔رپورٹ میں ایک بار پھر افغانستان کی طالبان حکومت پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے مختلف دہشت گرد گروہوں، بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رکھا ہے، جو وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی