بیرک مائننگ کارپوریشن کے عبوری چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او)مارک ہِل نے کہا ہے کہ کمپنی پاکستان میں ریکو ڈک تانبے کی کان سے وابستہ اپنے عزم پر قائم ہے۔برطانوی خبررساںادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیرک ریکو ڈک منصوبے اور پاکستان کے ساتھ اپنے عزم پر قائم ہے۔بلوچستان میں تواتر کے ساتھ دہشت گرد حملے ہوتے رہتے ہیں، جس کے باعث کان کے لیے سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے, منصوبے کیلئے ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن بھی ضروری ہے تاکہ تانبے کے کنسنٹریٹ کو پراسیسنگ کیلئے کراچی منتقل کیا جا سکے۔ان کا بیان کمپنی کی ممکنہ واپسی کی خبروں کے بعد سامنے آیا ہے ۔ خبر رساں ادارے کے مطابق بلوچستان کے دور دراز اور شورش زدہ مغربی صوبے میں واقع 7 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ کمپنی اور پاکستانی حکام کے درمیان مساوی شراکت داری پر مبنی ہے، اور توقع ہے کہ 2028 کے اختتام تک اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق بیرک کے بورڈ نے کمپنی کے اثاثے تقسیم کرنے کے امکان پر غور کیا ہے، جس میں ریکو ڈک کان اور کمپنی کے افریقی اثاثوں کی فروخت کا امکان بھی شامل ہے۔انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر قرض دہندگان 2 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد کا فنانسنگ پیکج ترتیب دے رہے ہیں، ریکو ڈک منصوبے نے 2024 میں بیرک کے سونے کے ذخائر میں 1 کروڑ 30 لاکھ اونس کا اضافہ کیا اور توقع ہے کہ پہلے مرحلے میں سالانہ 2 لاکھ ٹن تانبہ پیدا کرے گا، جو توسیع کے بعد دگنا ہوجائے گا۔منصوبے سے 37 سال میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ فری کیش فلو کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی