امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر سکتے ہیں، لیکن وہ کسی بھی فریق کو یہ پیشکش قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ بات محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس سے میڈیا بریفنگ کے دوران کہی ۔اس سے سوال کیا گیا کہ بھارت مسلسل صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کیوں کر رہا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے، ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین خود کرے، وہ مدد کی پیشکش کرتے ہیں، اور یہ اس پر منحصر ہے کہ جس کو یہ پیشکش کی جا رہی ہے، وہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔یہ وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتی ہے، خاص طور پر گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپ کے بعد جس سے خطہ جوہری تصادم کے قریب پہنچ گیا تھا، لیکن امریکا یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس کے اثر و رسوخ کی حدیں موجود ہیں۔صدر ٹرمپ نے کشمیر کو ہزار سالہ تنازع قرار دیتے ہوئے حالیہ ہفتوں میں کئی بار اس کے حل میں مدد کی پیشکش کی ہے
تاہم بھارت کا دیرینہ موقف ہے کہ کشمیر ایک دو طرفہ معاملہ ہے، جس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ٹیمی بروس نے مزید کہا کہ میں کسی دوسرے ملک کے فیصلوں کی نوعیت پر تبصرہ نہیں کروں گی، یہ ان کا اپنا معاملہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اس معاملے پر بھارت کے اندرونی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک دلچسپ اور اہم دور میں جی رہے ہیں، جہاں ہمارے پاس ایک ایسا لیڈر ہے جو فرق پیدا کرسکتا ہے، اور وہ یہ فرق پیدا کرنے کے لیے مخلص بھی ہے، وہ اپنی مدت صدارت کو کسی بھی اور مقصد کے لیے مخصوص کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے امن اور امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کے مقصد کو اپنایا۔انہوں نے کہا کہ میں کسی دوسرے ملک کے فیصلے کی نوعیت پر بات نہیں کروں گی، یہ ان کا اپنا اختیار ہے، لیکن میرا خیال ہے ہم سب شکر گزار ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو مدد کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ ان بیانات میں کسی بھی فریق پر دبائو ڈالنے کی کوشش نہیں کی گئی، لیکن ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کا خواہاں ہے، چاہے بھارت اس پیشکش کو قبول کرے یا نہ کرے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی