آئی این پی ویلتھ پی کے

پنجاب نے بنجر زمینوں کو سرسبز بنانے کے لیے ہائیڈروسیڈنگ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا: ویلتھ پاک

August 08, 2025

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے ماحولیاتی انحطاط اور زمین کے کٹا وسے نمٹنے کے لیے پنجاب کے محکمہ جنگلات نے بنجر زمینوں کو پودوں کے احاطہ میں لانے کے لیے ہائیڈروسیڈنگ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔پنجاب کے محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر عابد گوندل نے کہاکہ ہم نے لاہور کے قریب جلو پارک میں زمین پر بیج، پانی اور غذائی اجزا کے مرکب کو چھڑکنے کے لیے خصوصی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے کئی ایکڑ پر ہائیڈروسیڈنگ کا کامیابی سے عمل درآمد کیا ہے۔ہائیڈرو سیڈنگ ٹیکنالوجی، جسے ہائیڈرو ملچنگ بھی کہا جاتا ہے، سب سے پہلے ایک امریکی انجینئر ماریس مینڈل نے تیار کیا تھا، جس نے دریافت کیا کہ بیج اور پانی کو ملا کر ڈھلوانوں پر بیج، کھاد، پانی، نامیاتی مادے اور مٹی کو بڑھانے والے اجزا کے ساتھ ملچ کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم پہلا تجارتی ہائیڈروسیڈ کئی سال بعد ایک اور امریکی چارلی فن نے تیار کیا۔اس تکنیک نے مٹی کے کٹاو پر قابو پانے، زمین کی بحالی اور سبز غلاف کو بہتر بنانے کے لیے ایک موثر اور ماحول دوست حل کے طور پر بتدریج مقبولیت حاصل کی ہے۔اسے پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر اپنایا گیا ہے، خاص طور پر ریاستہائے متحدہ، کینیڈا، میکسیکو، جرمنی، فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا، چین اور جاپان جیسے ممالک میں۔

مشرق وسطی کے ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں اپنی بنجر زمینوں کو سبزہ زار بنا کر اس حیرت انگیز جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ہائیڈروسیڈنگ ٹیکنالوجی کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے پنجاب کے چیف کنزرویٹر عابد گوندل نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ اس امید افزا ٹیکنالوجی کے طریقے کو پاکستان میں حکومتی سطح پر آزمایا گیا ہے جس کا مقصد بنجر زمینوں کو سرسبز بنانا اور ماحولیاتی بحالی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔گوندل نے کہاکہ پاکستان میں ہائیڈروسیڈنگ کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں، بشرطیکہ اسے سائنسی بنیادوں پر لاگو کیا جائے۔یہ تکنیک ان علاقوں میں کارگر ہے جہاں بوائی کے روایتی طریقے ناکام ہو جاتے ہیں جیسے پہاڑی ڈھلوان، بنجر زمینیں، یا بارش اور پانی کے بہا وکی وجہ سے مٹی کے کٹا سے متاثر ہونے والے علاقے ہیں۔پنجاب کے کل 50.7 ملین ایکڑ رقبے میں سے تقریبا 3.8 ملین ایکڑ بنجر یا غیر زرعی زمین ہے۔گوندل نے کہا کہ پنجاب کے چولستان اور تھل کے ریگستانوں کے علاوہ، ہائیڈروسیڈنگ ٹیکنالوجی کو دیگر بنجر علاقوں جیسے تھر اور بلوچستان میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ شہری منصوبوں جیسے سڑکوں کے کنارے زمین کی تزئین اور نئی ہاوسنگ سکیموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہائیڈروسیڈنگ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو پنجاب بھر میں ہر جگہ گھاس اور مختلف اقسام کے پودوں کو تیزی سے اگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ کٹاو، زمین کی تزئین کی روک تھام اور ماحولیاتی بحالی میں موثر ہے۔تاہم، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں اس تکنیک کو فروغ دینے کے لیے کچھ چیلنجز ہیںجن میں پانی کی کمی، خصوصی مشینری کی عدم دستیابی، اور تربیت یافتہ افراد کی کمی شامل ہیں۔جنگلات کے ماہر نسیم بٹ نے کہا کہ چٹانی یا بانجھ مٹی اس کے لیے موزوں نہیں ہو سکتی ہے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ ہائیڈروسیڈنگ کے عمل کے لیے درکار خصوصی مشینری کی خریداری کے لیے سبسڈی فراہم کرنے کی فراہمی سے دنیا کے اس حصے میں اس کے استعمال کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف زمینوں کی سر سبزی ہی اس سے چھٹکارا پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے جو ماحولیاتی انحطاط کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔بٹ نے کہاکہ زمینیں جتنی زیادہ سرسبز ہوں گی، ماحولیاتی آلودگی، خاص طور پر سموگ میں کمی لانے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک