90 روز میں انتخابات کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ میں لکھوں گا کہ 54 دنوں کا شیڈول سامنے رکھتے ہوئے صدر الیکشن کی تاریخ دیں،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہہ رہے ہیں جا وعدالت سے رائے لے لو، صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئنی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی سمیت دیگر کی درخواستوں پر 90 روز میں الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نے کی ۔ 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ، بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے ۔ الیکشن کمیشن حکام، اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں موجود تھے ۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ اپنی استدعا کو صرف ایک نقطہ تک محدود کروں گا، استدعا ہے کہ الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہیے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے پیپلزپارٹی کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی ہے، انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیرموثر ہو چکی ہے۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے سوال کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں؟، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ میرا نہیں خیال کوئی اس کی مخالفت کرے گا، اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے؟، جس جواب اٹارنی جنرل نے انکار میں دیا۔ وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 58 اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ مشورہ لینا ضروری نہیں ہے، صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے کہ وہ تاریخ دے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دے دی ہے تاہم الیکشن کمیشن نے اس پر کہا کہ یہ صدر کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہ خط دکھا سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے، چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟، اس پر وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختلاف کرنے والے چاہیں اختلاف کرتے رہیں ، ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں، صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدر تاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری مشینری شامل ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ انتحابات کی تاریخ دے سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتحابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے
صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے۔علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں، صدر فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت ،الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب کیا آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کے تاریخ دیں، علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہ رہے جاو عدالت سے رائے لے لو، صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئنی خلاف ورزی ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی