چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے بلے کا نشان بحال کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں، الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے، سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، پی ٹی آئی خود ہائی کورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ براہ راست کیس سماعت کی ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور قانونی ٹیم کمرہ عدالت میں موجود تھے ، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، وکیل حامد خان، وکیل شعیب شاہین، چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ، اس کے علاوہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود تھے ۔ سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آ گئے ۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو جواب دیا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔ بعدازاں مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے مقف اپنایا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، انہوں نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ مقدمہ کیلئے کب تیار ہونگے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس صورت میں تیاری کیلئے (آج) ہفتہ تک کا وقت دیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں موقف اپنایا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے سوال کیا یہ بات درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟۔ تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعوی نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہوگا پہلے حق دعوی اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کی تشکیل قانونی طور پر درست نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ حقیقت درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل کے قابل سماعت ہونے کا اعتراض ہے تو حامد خان پہلے آپ دلائل دیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض کر دیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کر سکتا، متاثرہ فریق نے اپیل کرنا ہوتی ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے حکم کا دفاع نہ کرے، تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ کیا کوئی جج بھی اپنے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائی کورٹ اپیل پر بھی آئے گا، الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔ جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے مقف اپنایا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرنڈر کر دے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہو سکتے،
آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا۔ جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، انہوں نے سوال کیا کہ پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائی کورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آی کے پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات ملی ہیں ۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ درخواستیں کس نے دار کیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے۔ اس دوران اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، انہوں نے عدالت میں مقف اپنایا کہ ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اکبر ایس بابر فاونڈر ممبر پی ٹی آئی ہے، وہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ پی ٹی آئی کے ممبر کیوں نہیں؟ چیف جسٹس نے حامد علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فانڈر ممبر تو میرے حساب سے کبھی ختم نہیں ہوتا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا انہوں نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ یہ تو ایک اور بحث ہے کہ کون فاونڈنگ ممبر ہے کون نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ حامد خان صاحب کیا آپ تحریک انصاف کے فاونڈنگ ممبر نہیں ؟ تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ جی میں پارٹی کا فاونڈنگ ممبر ہوں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی