چینی کمپنیوں کے تعاون سے پاکستان کے صحر ا سر سبز کھیتوں میں تبدیل ہو گئے ،گرین پاکستان انیشی ایٹو صحرائے چولستان میں زراعت کی بحالی پر توجہ دے رہا ہے ، اس منصوبے میں چین سے درآمد کی جانے والی سمارٹ زرعی مشینری متعارف کرائی گئی ہے ،پاکستانی کمپنیاں چینی شراکت داروں کے تعاون سے صحرائی علاقوں میں زراعت کو فروغ د ے رہی ہیں، 4500 ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کی سرگرمیاں جاری ہیں ، 1200 ایکڑ زمین تیار کی جا چکی ، علاقے میں 10 ہزار مویشی پالنے کا منصوبہ ہے ۔ گوادر پرو کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط کے چیلنجز کا سامنا کرنے والی دنیا میں، صحراوں کو پھلتے پھولتے نخلستان اور سرسبز مناظر میں تبدیل کرنے کا خیال شاید دور کی بات معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، دنیا بھر میں جنگلات کی بحالی کے پرجوش منصوبے اس وژن کو حقیقت کا روپ دے رہے ہیں۔ پاکستانی کمپنیاں چینی شراکت داروں کے تعاون سے صحرائی علاقوں میں زراعت کو فروغ دینے کے لیے مختلف اختراعی منصوبوں کی قیادت کر رہی ہیں۔ یہ کوششیں بنیادی طور پر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گڑھ کے ساتھ ساتھ بھکر میں صحرائے تھل اور بہاولپور میں صحرائے چولستان میں کاشتکاری پر مرکوز ہیں۔گوادر پرو کے مطابق پاکستان پانچ بڑے ریگستانوں پر مشتمل ہے جو کبھی جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان میں سندھ میں صحرائے تھر، بلوچستان میں صحرائے خاران، سکردو میں صحرائے کٹپنا، پنجاب کے شہر بھکر میں صحرائے تھل اور پنجاب کے شہر بہاولپور میں صحرائے چولستان شامل ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق چین اور پاکستان کے درمیان صحرائے تھل میں کاشتکاری کے قابل ذکر منصوبوں میں سے ایک نے گزشتہ سال نمایاں توجہ حاصل کی کیونکہ اس نے روڈز گھاس، گندم، الفالفا، باغات، ترشاواپھل، آم، امرود، بانس، زیتون، کھجور اور باری سمیت مختلف قسم کی فصلوں اور درختوں کی کامیابی سے کاشت کی ۔ پنجاب کے علاقے رنگ پور مظفر گڑھ میں واقع یہ منصوبہ جدید زرعی پانی کی بچت کرنے والی مشینری سے لیس ہے جسے سینٹرل پیوٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔
گوادر پرو کے مطابق اسی طرح لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم(ایل آئی ایم ایس) کی سربراہی میں گرین پاکستان انیشی ایٹو صحرائے چولستان میں زراعت کی بحالی پر توجہ دے رہا ہے۔ یہ اقدام کاشتکاری اور مویشیوں کے انتظام کو بہتر بنانے کے لئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ اس منصوبے میں چین سے درآمد کی جانے والی سمارٹ زرعی مشینری متعارف کرائی گئی ہے، جو کارپوریٹ فارمنگ انیشی ایٹو کے تحت جدید کاشتکاری تکنیک کی طرف ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ گوادر پرو کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت کو مختلف شعبوں میں متحرک کرنے کی ضرورت ہے، جدید صحرائی منصوبے غذائی تحفظ میں اضافے اور ذریعہ معاش کو بہتر بنا کر مثبت نمو میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے متعدد منصوبوں میں ریگستانوں کو پیداواری زراعت اور یہاں تک کہ آبی زراعت کے مراکز میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے۔اسی طرح کا ایک اور منصوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور کے صحرا چولستان میں کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ ڈیزی فارمز کے ڈائریکٹر آپریشنز عبدالحفیظ نے گوادر پرو کو بتایا کہ 4500 ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کی سرگرمیاں جاری ہیں جو کبھی خالص صحرا ہوا کر تا تھا۔ اس میں سے 1200 ایکڑ زمین پہلے ہی تیار کی جا چکی ہے اور اس علاقے میں 10 ہزار مویشی پالنے کا منصوبہ ہے۔ گوادر پرو کے مطابق حفیظ نے بتایا کہ وہ تقریبا 27 پیوٹس نصب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، جو وہ ترکی سے درآمد کر رہے ہیں۔ کاشتکاری کے منصوبے میں مقامی کسانوں اور مزدوروں کو ملازمت دی گئی۔ اس سے قبل حفیظ مظفر گڑھ کے صحرا تھل میں ایک چینی کمپنی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ گوادر پرو کے مطابق انہوں نے کہا کہ چین نے کامیابی کے ساتھ اپنی زمینوں پر جنگلات لگائے ہیں اور تجویز دی کہ پاکستان کو خوراک کی دستیابی اور پیداوار کو بڑھانے کے لئے اسی طرح کی تکنیک کو اپنانا چاہئے۔ اس طرح کے جدید صحرائی منصوبے خشک علاقوں کو پیداواری زرعی زمینوں میں تبدیل کرکے پاکستان کی غذائی سلامتی میں نمایاں اضافہ کرسکتے ہیں۔
مزید برآں، وہ روزگار کے مواقع پیدا کرکے اور مقامی معیشت کو متحرک کرکے مقامی برادریوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق معروف زرعی اور فوڈ کمپنیوں کے زرعی کنسلٹنٹ سیم نولٹن نے حال ہی میں پاکستان کے صحرائے تھل میں واقع ڈراون فارم کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر منظم کثیر اقسام کی چراگاہوں کے صرف دو موسموں کے بعد، صحرائی مٹی بے جان ریت سے کاربن سے بھرپور اسفنج میں تبدیل ہوگئی ہے، جو زمین کے اوپر اور نیچے زندگی کے بڑھتے ہوئے تنوع کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارم صحرا کو سرسبز بنا رہا ہے جبکہ مختلف قسم کے اناج، پھل، خصوصی فصلیں، مویشی اور بہت کچھ پیدا کر رہا ہے۔ گوادر پرو کے مطابق حکومت پاکستان گرین ڈیزرٹ اقدامات جیسے جدید منصوبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ چاہتی ہے جس سے اس کی معیشت کو نمایاں طور پر فروغ مل سکتا ہے۔ تھرپارکر، جسے سندھ میں صحرائے تھر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، خاص طور پر دنیا کا 18 واں سب سے بڑا صحرا، غیر ترقی یافتہ ہے، اور اس طرح کے اقدامات صوبے میں انتہائی ضروری خوشحالی لا سکتے ہیں۔ یو این ڈی پی کے پاکستان کے لیے کثیر الجہتی غربت انڈیکس کے مطابق تھرپارکر کی 87 فیصد آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اپنی وسیع صلاحیت کے ساتھ تھر کا علاقہ ان جدید صحرائی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے نمایاں اقتصادی ترقی اور معیار زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ وہ نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے منفی اثرات کو کم کر رہے ہیں بلکہ پائیدار اور سرسبز مستقبل کی امید بھی فراہم کر رہے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی