جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل نے انڈونیشیا میں اسٹریٹیجک توسیع کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ اس اقدام کو پاکستانی اداروں کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی موجودگی اور مؤثر شراکت داریوں کی ایک نمایاں مثال قرار دیا جا رہا ہے، جو ملکی اور غیر ملکی معیشت کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل کے گروپ سی ای او، یاسر خان نیازی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے انڈونیشیا کی وزارتِ خارجہ کی معاونت سے مشرقی نوسا ٹینگارا (NTT) صوبے کے اہم حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اس وفد میں اسلام آباد میں انڈونیشین سفارتخانے کے نمائندے اور کنسلٹنٹ پارٹنرز RSM پاکستان اور RSM انڈونیشیا بھی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں خصوصی ڈاکٹروں کی تعیناتی، جی اے کے کے فلیگ شپ ادارے اسلام آباد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی طرز پر ایک میڈیکل کالج کے قیام اور تحقیق و تربیت کے مرکز کے قیام پر بات چیت کی گئی۔ یاسر خان نیازی نے کہا کہ "ہمارا یہ توسیعی منصوبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایشیا پیسیفک ہیلتھ کیئر سیکٹر 2030 تک 5 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جو دنیا کی مجموعی ہیلتھ کیئر ترقی کا تقریباً 40 فیصد ہوگا۔ جنوب مشرقی ایشیا کی ایجوکیشن ٹیکنالوجی مارکیٹ، جس کی مالیت 2024 میں 10.7 ارب ڈالر ہے، 2033 تک 41.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی پیش گوئی ہے۔
پاکستان میں جی اے کے کے کامیاب ماڈلز کی بنیاد پر، جہاں ہم نے اسپتال، میڈیکل، ڈینٹل، نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کالجز اور تربیتی ادارے قائم کیے ہیں، ہم پاکستان کو علم، صحت کی معیاری خدمات اور جدت کا مرکز بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ منصوبہ نہ صرف علاج اور تعلیم کے معیار کو بلند کرے گا بلکہ پاکستان اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نمایاں معاشی فوائد بھی پیدا کرے گا، جو دیانت، جدت اور پائیدار ترقی پر مبنی ہوں گے۔" لابوان باجو میں، ویسٹ منگارائی کے ریجنٹ ایڈیسٹاسیئس اینڈی نے یاسر نیازی سے ملاقات کی اور ہیلتھ ٹورازم کو علاقائی ترقی کی ترجیح قرار دیا۔ ریجنٹ نے اس وژن کے لیے مکمل سرکاری تعاون کا یقین دلایا، جس میں زوننگ پالیسیوں میں رعایت اور صحت کے منصوبوں کو آسان بنانے کے لیے ممکنہ صدارتی احکامات شامل ہیں۔ نوسا سینڈانا یونیورسٹی (کُوپانگ) اور آر ایس یو ڈی کوموڈو اسپتال میں، اکیڈمک اور ہیلتھ کیئر رہنماؤں، بشمول ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر میکس یو ای سانم اور ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریا یوسفینا میلندا گمپر، نے جی اے کے کے وژن کو خوش آمدید کہا۔
انہوں نے فیکلٹی اور طلبہ کے تبادلے، مشترکہ تحقیق، ڈیٹا شیئرنگ اور بتدریج تعلیمی تعاون جیسے اقدامات کی تجاویز پیش کیں، جو اس شراکت داری کی صلاحیت کو مضبوط کرنے کی عکاسی کرتی ہیں۔ یاسر خان نیازی نے مزید کہا: "یہ تعاون صرف صحت اور تعلیم تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہم دنیا کے بڑے چیلنجز کے لیے حل فراہم کر سکتے ہیں۔ درست سرمایہ کاری اور پالیسی سپورٹ کے امتزاج سے، پاکستانی ادارے ایسے ماڈلز قائم کر سکتے ہیں جو قومی سطح پر کامیاب ہوں، بین الاقوامی سطح پر وسعت اختیار کریں اور ایسے مراکز میں ڈھل جائیں جو نسل در نسل ترقی، علم اور پائیدار قدر پیدا کریں۔" جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل کے ہیڈ آف کمیونیکیشن، عمران علی غوری نے کہا: "یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے نجی شعبے کو بین الاقوامی سطح پر کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی صحت اور تعلیم کی مارکیٹ اکیلے ہی بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہے۔ سرمایہ کاروں اور حکومتوں کے لیے یہ شراکت داری ایک منفرد موقع ہے کہ وہ ایسے منصوبوں میں شامل ہوں جو نہ صرف سماجی اثرات مرتب کریں بلکہ مضبوط معاشی منافع بھی فراہم کریں۔"
یہ اقدامات سرحد پار ایسے منصوبوں کا آغاز ہیں جن سے آئندہ پانچ برسوں میں ملٹی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی