i پاکستان

قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس ،سیکریٹری صنعت و تجارت اور سینیٹر فدا محمد کے درمیان تلخ کلامیتازترین

January 11, 2024

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا سینیٹر خالدہ اطیب کی زیر صدارت اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میںمنعقد ہوا،اجلاس میں اسٹیل ملز حکام کی جانب سے کہا گیا کہ سال 2019 سے 40 چوری کے واقعات کی تحقیقات ہوئیں،اسٹیل ملز میں ایک کروڑ 88 لاکھ روپے مالیت کی چوری ہوئی۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ کا کہنا تھا کہ چوری شدہ چیزوں میں گاڑی اور ریلوے ٹریک بھی شامل ہے،کمیٹی ارکان کا کہنا تھا کہ کیا ان سب چیزوں کی مالیت 2 کروڑ بھی نہیں بنتی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اسٹیل ملز میں مساجد کے مولویوں کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں دی جارہیں۔ اسٹیل ملز حکام کی جانب سے کہا گیا کہ اسٹیل ملز میں 37 ملازمین مذہبی بنیادوں پر رکھے گئے ہیں، پاکستان اسٹیل ملز میں 41 مساجد ہیں ، سیکریٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ اگر ملازمین کم ہو گئے ہیں تو نماز پڑھانے والے بھی کم کر دیں،اسٹیل ملز ملازمین وہاں خود ہی نماز پڑھا دیا کریں ، سینیٹر فدا محمد نے استفسارکرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا مساجد بند کرانا چاہتے ہیں؟سیکریٹری صنعت و تجارت اور سینیٹر فدا محمد کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔ سیکریٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ سر آپ بات کی غلط تشریح نہ کریں مساجد بند کرنے کا نہیں کہا،ملازمین کم ہونے سے اسٹیل ملز کی کئی مساجد بند پڑی ہیں،اسٹیل ملز حکام کی جانب سے کہا گیا کہ 37 اماموں کو 9 لاکھ 25 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں،ہر امام کو 25 ہزار روپے ادا کیے جا رہے ہیں، مساجد کے اماموں کو پیسے ملازمین سے فنڈ اکٹھا کرکے دیے جاتے ہیں، پاکستان اسٹیل ملز کے اربوں روپے کے اخراجات ہیں۔ سیکریٹری صنعت و پیداوار کا کہنا تھا کہ پرانے گھر کی طرح اسٹیل ملز نے بھی سامان بیچنا شروع کر دیا ہے،اسٹیل ملز ملازمین کو سامان بیچ کر تنخواہیں دی جاتی ہیں۔اسٹیل ملز حکام نے کہا کہ سالانہ 2.5 ارب روپے کی ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں۔سیکریٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ اسٹیل ملز پر روزانہ 20 میگاواٹ بجلی خرچ ہو رہی ہے۔

سینیٹر ذیشان خانزادہ کا کہنا تھا کہ ملک میں 20 میگاواٹ بجلی پر کتنی ہی صنعتیں چل سکتی ہیں، سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ اسٹیل ملز کی ساڑھے 19 ہزار ایکٹر زمین کی مالیت ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے، پاکستان میں ایک چیز چلتی ہے اور وہ ہاوسنگ اسکیم ہے،کیوں نہ ہاوسنگ بنا کر پیسے بنائیں جائیں اور ملک کا قرضہ اتارا جائے۔ سیکریٹری صنعت راشد لنگڑیال نے کہا کہ اسٹیل ملز کی زمین وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، اسٹیل ملز کی زمین کا سندھ حکومت کا دعویٰ درست نہیں، وفاق نے اسٹیل ملز کی زمین کے لیے سندھ حکومت کو پوری رقم دی تھی،وفاق تمام صوبوں کی علامت ہے، اس لیے اسٹیل ملز پر تمام صوبوں کا حق ہے، حکام اسٹیل ملز کی جانب سے کہا گیا کہ اسٹیل ملز ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دوبارہ فعال ہوسکتی ہے، ایک ارب ڈالر سے اسٹیل ملز کی پیداوار 30 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچ سکتی ہے، اسٹیل ملز فوری پیداوار سے اسٹیل کا درآمدی بل ایک ارب ڈالر کم ہوسکتا ہے ، اسٹیل ملز کی زمین کی فی ایکڑ مالیت کم از کم 3.5 کروڑ روپے بنتی ہے۔سیکریٹری صنعت راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کی زمین کی مالیت کم از کم 1000 ارب روپے بنتی ہے، اسٹیل ملز کے آس پاس زمین کی ویلیو 4.5 کروڑ روپے فی ایکڑ سے زائد ہے،حکام نے کہا کہ اسٹیل ملز پر وفاقی حکومت کا قرضہ 105 ارب اور سالانہ سود 15 ارب روپے ہے، اسٹیل ملز پر نیشنل بینک کا قرضہ 43 ارب روپے ہے، اسٹیل ملز پر سوئی سدرن کے واجبات 23 ارب روپے ہیں، اسٹیل ملز کے 2200 مستقل اور 1000 کنٹریکٹ ملازمین ہیں،اسٹیل ملز سے 5882 ملازمین نوکری سے فارغ کیے گئے ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی