وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ریاست ہر طرح کی سیاست سے مقدم ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔وزیر اعلی بلوچستان نے پندرہویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو سمجھنے کے لیے تاریخ سے آگاہی اور تصور و حقیقت میں فرق کو جاننا ضروری ہے۔میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ 1948 کے قلات آپریشن کو پورے بلوچستان کا آپریشن قرار دینا تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح لیاری یا رحیم یار خان کے کسی ایک واقعے کو پورے کراچی یا پنجاب کا مسئلہ نہیں کہا جا سکتا، ویسے ہی قلات کے محدود واقعے کو پورے بلوچستان کا مسئلہ کہنا درست نہیں۔انہوں نے کہا کہ غیر متوازن ترقی صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے، تاہم بلوچستان میں انسرجنسی کی وجہ یہ نہیں بلکہ بیڈ گورننس اور غلط بیانی ہے۔ ریاست سے ناراضگی کا جواز نہیں، آئین کا آرٹیکل 5 ہر شہری کو غیر مشروط وفاداری کا پابند بناتا ہے۔
وزیر اعلی نے خبردار کیا کہ دشمن مصنوعی ذہانت، سوشل میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کر رہا ہے، جنہیں دہشت گردی کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ شناخت کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے حالانکہ دہشت گرد پنجابی، بلوچ، سندھی نہیں دیکھتے بلکہ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ اب وقت ہے کہ ہم جھوٹ پر مبنی بیانیوں سے باہر نکلیں اور سچ کا ساتھ دیں۔ ریاست سے وفاداری اور یکجہتی ہی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں میرٹ کی بحالی کی جانب تاریخی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، محکمہ تعلیم اور صحت میں پہلی بار میرٹ پر بھرتیاں ہوئیں، ملازمتوں کی خریدو فروخت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بینظیر بھٹو اسکالرشپ پروگرام کے تحت غریب طلبہ کو اعلی تعلیم تک رسائی دی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے غریب مزدور کا بچہ بھی آج انہی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے جہاں صاحب حیثیت افراد کے بچے زیر تعلیم ہیں۔ اقلیتوں، سویلین شہدا اور ٹرانس جینڈر افراد کے لیے بھی تعلیمی اسکالرشپس مختص کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ 30 ہزار نوجوانوں کو ہنرمند بنا کر بیرون ملک روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی