ایک سیشن عدالت نے مدرسے کے استاد کو 11 سالہ بچے کے مبینہ اغوا اور ریپ کے مقدمے میں شواہد کی عدم موجودگی کی بنیاد پر بری کر دیا۔رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ملیر)لیاقت علی کھوسو نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملزم سید محمد معین الدین کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دیا، کیونکہ استغاثہ ان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، ملزم کو ویڈیو لنک کے ذریعے جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کے گواہوں کے بیانات، خاص طور پر ایف آئی آر میں ملزم کو نامزد کرنے سے متعلق بیانات میں تضادات اور طبی و ڈی این اے شواہد کے غیر واضح اور متضاد ہونے کی وجہ سے ملزم کی مجرمانہ ذمہ داری سے متعلق سنگین اور معقول شک پیدا ہوتا ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ جنسی جرائم، خاص طور پر بچوں سے متعلق مقدمات میں متاثرہ بچے کا بیان بہت اہمیت رکھتا ہے, تاہم، یہ اصول طے شدہ ہے کہ اگر ایسا بیان آزاد، قابلِ اعتماد شواہد سے ثابت نہ ہو اور اس میں تضادات موجود ہوں، تو اسے انتہائی احتیاط اور آزاد شہادت سے تصدیق کے بعد ہی قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔عدالت نے مزید کہاکہ موجودہ مقدمے میں میڈیکل رپورٹ متاثرہ بچے کے بیانیے کی تائید کرنے کے بجائے اس کی تردید کرتی ہے
کیونکہ رپورٹ میں کسی قسم کے جسمانی تشدد کے شواہد نہیں ملے اور ڈی این اے رپورٹ بھی غیر حتمی نکلی، جس میں اہم نمونے سے ملزم کو خارج از امکان قرار دیا گیا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ مدعی اور ایف آئی آر درج کروانے والے گواہ نے ملزم کی نامزدگی کے حوالے سے بیانات دیے، لیکن میڈیکل اور ڈی این اے شواہد میں اہم نوعیت کے تضادات اور ابہام موجود ہیں۔عدالت نے کہا کہ ایسے تضادات استغاثہ کے مقدمے کو ناقابلِ اعتبار بنا دیتے ہیں۔استغاثہ کے مطابق مدعی نے بیان دیا کہ جون 2023 میں سکھیا گوٹھ اسکیم 33 کراچی کے مین بازار سے اس کا بیٹا لاپتہ ہو گیا، جو ایک ماہ 14 دن بعد بازیاب ہوا، مدعی کا کہنا تھا کہ اس کے بیٹے نے بتایا کہ اسے اس کے مدرسے کے استاد نے اغوا کیا، پنجاب لے جا کر قید میں رکھا، تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ ریپ کیا۔مقدمے کی کارروائی کے دوران ملزم نے استغاثہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی بے گناہی کا دعوی کیا اور کہا کہ اسے جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا ہے، تاہم ملزم نے نہ تو اپنے دفاع میں خود بیان ریکارڈ کروایا اور نہ ہی کسی گواہ کو پیش کیا۔یہ مقدمہ سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا تھانے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 364-اے (14 سال سے کم عمر بچے کا اغوا) اور 377-بی (غیر فطری جنسی جرم) کے تحت درج کیا گیا تھا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی