لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں زیر حراست ملزموں کے انٹرویوز کرنے اور پولیس سمیت دیگر اداروں کی جانب سے ملزمان کے اعترافی بیان جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی درخواست پر گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں لکھا کہ زیرحراست ملزم کا انٹرویو اسکی عزت نفس اور مستقبل کو دائو پر لگا دیتا ہے، یہ مناسب وقت ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے کردار کو ریگولیٹ کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکوں اور چیک پوسٹوں پر میڈیا نمائندوں کو ساتھ کھڑا کر کے شہریوں کو تذلیل کرنا افسوسناک ہے، اداروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا پورا حق ہے، میڈیا میں مقبولیت کے لئے شہریوں کی عزت اور وقار کو دا پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔فیصلہ میں کہا گیا کہ درخواستگزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی، درخواست گزار نے زیر حراست ملزمان کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عزت نفس مجروح کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا، پولیس، ایکسائز، ایف آئی اے، سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹس جمع کروائیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ زیرحراست ملزمان کے انٹرویوز سے نہ صرف ملزم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ پراسیکیوشن کا کیس بھی کمزور ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے نہ صرف قانونی اور اخلاقی سوالات جنم لیتے ہیں بلکہ کریمنل جسٹس سسٹم کیلئے بھی تشویش ناک ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کا وقار ناقابل تسخیرہے جو پولیس کے دروازے پر ختم نہیں ہو سکتا، کسی ملزم کی قانونی گرفتاری اسکو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے، آئین کہتا ہے ہر شہری کو عزت اور قانون کے مطابق دیکھا جائے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ دوران حراست ملزمان کے انٹرویوز میڈیا ٹرائل کی ایک شکل ہے، میڈیا ٹرائل کا مطلب کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کو بے گناہ یا قصور ڈکلیئر کرنے کے لئے عوامی رائے قائم کرے، ضروری ہے کہ میڈیا معاشرے کی بہتری کیلئے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لائن کراس نہ کرے، میڈیا کے ذریعے ٹرائل سے نہ صرف کام خراب ہوتا ہے بلکہ ملزم کے فیئر ٹرائل اور پرائیویسی بھی کمپرومائز ہوتی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کسی بھی زیر حراست ملزم کو میڈیا تک رسائی دینے اور انٹرویو کرانے پر تفتیشی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہو گا، اس کیس میں ایک طرف آئین میں دی گئی میڈیا کی آزادی اظہار اور دوسری طرف ملزم کے فیئر ٹرائل اور بنیادی حقوق کو بیلنس کرنا ہے۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے قرار دیا کہ میڈیا کو زیر التوا ٹرائل اور تحقیقات کی درست رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہے مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے، زیرحراست کا مطلب کسی بھی فرد کو قانونی طور پر گرفتار کرنا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی