اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹریٹ کے ملازم محمد فیضان کی بازیابی کی درخواست پر انسپکٹر جنرل ( آئی جی) پنجاب کو آئندہ سماعت میں طلب کرلیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے بابر اعوان، رضوان اعوان، سردار مصروف، آمنہ علی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، ان کے علاوہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل، اسٹیٹ کونسل اور پولیس افسران بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سرکاری وکیل نے عدالت میں بتایا کہ ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا، وکیل درخواستگزار نے کہا کہ 28 جولائی کو بندہ لاپتا ہوا اور 29 جولائی کو ان کے پاس درخواست دی گئی، ہماری درخواست کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کی کوئی ایس او پیز ہے کہ اگر کسی کا لکھا ہو تو آپ درخواست انٹرٹین نہیں کریں گے، وکیل درخواستگزار سے مزید دریافت کیا کہ آپ کی درخواست پر مقدمہ کب درج ہوا؟ وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ 10 اگست کو ہماری درخواست پر مقدمہ درج کر لیا گیا تھا، اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ ان دو ہفتوں میں اب تک کیا ہوا؟ اس موقع پر بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی یہ صرف عدالت کو اتنا بتائیں کہ تفتیشی نے آخری تفتیش کب کی ہے؟ عدالت نے اسٹیٹ کونسل سے مکالمہ کیا کہ ان کی کارکردگی کی لسٹ عدالت کو بتائیں، اگر ان کی قابلیت نہیں تو ان کو کیس سے ہٹایا جائے، انہوں نے مغوی کی بازیابی کے لیے کیا کیا وہ عدالت کو بتائیں۔ وکیل درخواستگزار بابر اعوان کا کہنا تھا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ آئی جی خود تفتیش نہیں کرسکتے؟ عدالت نے سرکاری وکیل سے دریافت کیا کہ کیا آپ اس تفتیش سے مطمئن ہیں؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے مرکزی سیکرٹریٹ کے تمام ملازمین اور ان کے پڑوسیوں سے تفتیش کی ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد ڈیوٹی پر واپس آگئے ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی